بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حالت حیض میں بچیوں سے قرآن سننا


سوال

میرا سوال یہ ہے کہ ایسےمدرسہ میں حفظ کی تدریس کرنا جائز ہے ،جہاں بچیوں کو مجبور کیا جاتا ہو کہ عذر کے ایام میں بھی قرآن سنائیں تاکہ کچا نہ ہو،مدرسہ کی انتظامیہ کو صحیح مسئلہ بتانے کے باوجود وہ معلمہ کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ عذر والی بچیوں کا سنیں ،ایسے مدرسہ میں تدریس جائز ہے یا نہیں؟

جواب

دورانِ حیض (ماہ واری) عورت کے لیے قرآنِ کریم کی تلاوت منع ہے، البتہ معلمہ کے لیے  تعلیمی ضرورت کی وجہ سے ایک آیت کی مقدار سے کم پڑھ کرسانس چھوڑ دینے کی حد تک فقہاءِ کرام نے جواز لکھا ہے؛ لہٰذا معلمہ طالبات کو پڑھائے، کلمہ کلمہ، لفظ لفظ الگ الگ کرکے پڑھے، یعنی ہجے کرکے پڑھیں، مثلا: الحمد ۔۔۔۔  للہ ۔۔۔۔  رب ۔۔۔ العالمین، مخصوص ایام میں خواتین کے لیے ہجے کرکے پڑھنا جائز ہے، البتہ مکمل آیت کا پڑھنا جائز نہیں۔

یہ یاد رہے کہ قرآن مجید کو  براہِ راست بغیر غلاف کے  ہاتھ لگانا اس حالت میں پکڑنا جائز نہیں، ہاں قاعدہ اور نماز کی کتاب وغیرہ  کو ہاتھ لگایا جاسکتا ہے۔

اگر معلمہ ایام سے ہو تو وہ بچیوں سے سبق اور منزل وغیرہ زبانی سن سکتی ہے، اسی طرح مصحف بچی پکڑے اور معلمہ اس میں دیکھ کر سنے اس کی بھی گنجائش ہے۔ اسی طرح اگر حفظ بھولنے کا اندیشہ ہو تو فقہاءِ کرام نے یہ صورت لکھی ہے کہ حافظہ کسی پاک کپڑے وغیرہ سے مصحف کو پکڑ کر اس میں دیکھ کر دل دل میں دہراتی جائے، زبان سے بالکل بھی تلفظ نہ کرے، اس کی بھی گنجائش ہے، اور اس سے حفظ کی ضرورت پوری ہوسکتی ہے۔

جس مدرسہ میں ایسے عذر والی بچیوں سے قرآن سننے کا کہا جاتا ہے ، مدرسہ کی انتظامیہ پر لازم ہے کہ جب مدرسہ قائم کرنے کا مقصد اللہ جل شانہ کی رضا کا حصول ہے تو شریعت مطہرہ کے احکام کی پابندی کرنا لازم ہے، خلاف شریعت کام کرنے کی صورت میں ثواب کے بجائے عند اللہ گرفت کا خطرہ ہے۔ اگر انتظامیہ  شرعی حکم کی رعایت نہیں رکھتی تو ایسے مدرسہ میں تدریس کے بجائے کسی دوسرے مدرسے میں تدریس کی جائے جہاں شرعی اصولوں کی رعایت کی جاتی ہو۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وَإِذَا حَاضَتْ الْمُعَلِّمَةُ فَيَنْبَغِي لَهَا أَنْ تُعَلِّمَ الصِّبْيَانَ كَلِمَةً كَلِمَةً وَتَقْطَعُ بَيْنَ الْكَلِمَتَيْنِ، وَلَايُكْرَهُ لَهَا التَّهَجِّي بِالْقُرْآنِ. كَذَا فِي الْمُحِيطِ". (الْفَصْلُ الرَّابِعُ فِي أَحْكَامِ الْحَيْضِ وَالنِّفَاسِ وَالِاسْتِحَاضَةِ،الْأَحْكَامُ الَّتِي يَشْتَرِكُ فِيهَا الْحَيْضُ وَالنِّفَاسُ ثَمَانِيَةٌ."

( ١/ ٣٨، ط: دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

’’( وقراءة قرآن ) أي ولو دون آية من المركبات لا المفردات؛ لأنه جوز للحائض المعلمة تعليمه كلمةً كلمةً، كما قدمناه وكالقرآن التوراة والإنجيل والزبور ... (ومسه) أي القرآن ولو في لوح أو درهم أو حائط، لكن لا يمنع إلا من مس المكتوب، بخلاف المصحف؛ فلا يجوز مس الجلد وموضع البياض منه، وقال بعضهم: يجوز، وهذا أقرب إلى القياس، والمنع أقرب إلى التعظيم، كما في البحر، أي والصحيح المنع كما نذكره، ومثل القرآن سائر الكتب السماوية كما قدمناه عن القهستاني وغيره‘‘.

(جلد ۱ ص:۲۹۳، ط: ایچ ایم سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410101159

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں