بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حالت احرام میں حجر اسود کو بوسہ دیتے وقت اگر ہونٹوں یا ہاتھوں پر خوشبو لگ جائے تو کیا حکم ہے؟


سوال

ہم عمرہ کرتے ہیں، پہلے کعبہ کا طواف کرتے ہیں اور پھر سعی کے لیے صفا مروہ جاتے ہیں! پھر ہم بال کاٹنے کے لئے جاتے ہیں. لیکن اس درمیان ہم حجر اسود اور غلاف  کو بوسہ دینے کا ارادہ کرتے ہیں، پھر جب ہم کعبہ کو چھوتے ہیں تو ہمیں خوشبو محسوس ہوتی ہے، ہمیں ہاتھوں اور ہونٹوں پر خوشبو آتی ہے۔ اگر بال کاٹنے سے پہلے کعبہ کو چھونا اور بوسہ لینا ٹھیک ہے تو برائے مہربانی راہنمائی فرمائیں۔ کیا عمرہ ٹھیک ہے؟ دراصل اب مطاف کے علاقے میں احرام کے بغیر جانے کی اجازت نہیں ہے، اسی لیے ہم کعبہ کو چھونے اور چومنے کے لیے  گئے تھے۔

جواب

واضح رہے کہ حالت احرام میں خوشبو کا ستعمال جائز نہیں ہے،لہذا احرام کی حالت میں  حجر اسود اور غلاف کعبہ کو چھونے یابوسہ دینے/ چومتے وقت ہاتھوں یا ہونٹوں پر خوشبو لگ گئی ،توتو زیادہ خوشبو لگنے کی صورت میں دم لازم آئے گا، اور معمولی خوشبو لگنے کی صورت میں دم تو لازم نہیں آئے گا، البتہ صدقہ فطر (یعنی پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت) کے برابر صدقہ کرنا واجب ہوگا۔لہٰذا حالت احرام میں غلاف کعبہ وغیرہ کو چھونے سے گریز کرنا چاہیے۔

المحيط البرهاني في الفقه النعماني" میں ہے:

" ‌وقال ‌في ‌المحرم: ‌إذا ‌مس ‌الطيب ‌أو ‌استلم ‌الحجر ‌فأصاب ‌يده ‌خلوق، ‌إن ‌كان ‌ما ‌أصابه ‌كثير ‌فعليه ‌الدم، فبعض مشايخنا اعتبروا الكثرة بالعضو الكبير نحو الفخذ والساق، فقالوا: إذا طيب الساق أو الفخذ بكماله يلزمه الدم، وبعضهم اعتبروا الكثرة بربع العضو الكثير فقالوا: إذا طيب رب الساق، والفخذ يلزمه الدم، وإن كان أقل من ذلك يلزمه الصدقة.والفقيه أبو جعفر رحمه الله اعتبر القلة والكثرة في نفس الطيب، فقال: إن كان الطيب في نفسه بحيث يستكثره بكفيه الناس، لكفين من ماء الورد، والكف من المسك أو الغالية، فهو كثير وما لا فلا، قال الشيخ الإمام شيخ الإسلام المعروف بخواهر زاده رحمه الله: إن كان الطيب في نفسه قليلاً، إلا أنه طيب عضواً كاملاً، فإنه يكون كثيراً، أو تكون العبرة في هذه الحالة للعضو، وإن كان الطيب في نفسه كثيراً لا يعتبر العضو مكانه سلك فيه طريق الاحتياط، وإن مس طيباً إن لم يلزق بيده شيء منه، فلا شيء عليه، وإن لزق بيده منه إن كان كثيراً يلزمه الدم، وإن كان قليلاً لا يلزمه الدم، ويكفيه الصدقة."

(‌‌‌‌كتاب المناسك،الفصل الخامس: فيما يحرم على المحرم بسبب إحرامه وما لا يحرم،ج2،ص453،ط:دار الكتب العلمية، بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101498

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں