بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حالت کفر میں کمایا گیا سود ایمان لانے کے بعد استعمال کرنے کا حکم


سوال

میرا ایک دوست جو مشرک تھا،  اس(کفر کے) زمانے میں وہ   سودی کاروبار میں مبتلا تھا،  اسلام لانے کے بعد کیا اس کے لیے اس سودی رقم سے خرچ کرنا جائز ہے؟ جب کہ اس کے پاس اور کوئی رقم یا مال نہ ہو؟ نیز اگر کچھ رقم ہو تب کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ جب تک کوئی شخص اسلام قبول نہ کرے اس وقت تک وہ اسلام کے فروعی اَحکام کا مکلف نہیں ہے،  اب اگر غیر مسلم سودی معاملہ کرکے سودی کمائی حاصل کرتا ہے،اور وہ ان کے  ہاں جائز ہو تو اس کا استعمال ان کے لیے درست ہوگا، اسی طرح اسلام لانے کے بعد ان کے پاس حالت شرک کی جو کمائی ہوگی وہ ان کے لیے حلال ہوگی، اور اس کا ستعمال اس کے لیے درست ہوگا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کے دوست کے لیے  اسلام قبول کرنے کے بعد حالت شرک میں کمائی گئی  سودی رقم   استعمال کرنا درست ہے۔

الإبهاج في شرح المنهاج میں ہے:

"قال الثانية ‌الكافر ‌مكلف بالفروع خلافا للحنفية وفرق قوم بين الأمر والنهي.

أطبق المسلمون على أن الكفار بأصول الشرائع مخاطبون وباعتبارها مطالبون ولا اعتداد بخلاف مبتدع يشبب بأن العلم بالعقائد يقع اضطرارا فلا يكلف به وأجمعت الأمة كما نقله القاضي أبو بكر على تكليفهم بتصديق الرسل وبترك تكذيبهم وقتلهم وقتالهم ولم يقل أحد إن التكليف بذلك متوقف على معرفة الله تعالى."

 (‌‌‌‌الباب الثاني فيما لا بد للحكم منه، المحكوم به، ج:1، ص:177،  ط:دار الكتب  العلمية)

نهاية السول شرح منهاج الوصول  میں ہے:

"قال: "المسألة الثانية: ‌الكافر مكلف بالفروع خلافا للمعتزلة، وفرق قوم بين الأمر والنهي، لنا أن الآيات الآمرة بالعادة تتناولهم، والكفر غير مانع لإمكان إزالته، وأيضا الآيات الموعدة على ترك ‌الفروع كثيرة مثل: {وَوَيْلٌ لِلْمُشْرِكِينَ، الَّذِينَ لا يُؤْتُونَ الزَّكَاةَ} [فصلت: 6، 7] وأيضا وإنهم كلفوا بالنواهي لوجوب حد الزنا عليهم، فيكونون مكلفين بالأمر قياسا قبل الانتهاء أبدا، ممكن دون الامتثال، وأجيب بأن مجرد الفعل والترك لا يكفي فاستويا وفيه نظر، قيل: لا يصح مع الكفر ولا قضاء بعده قلنا: الفائدة تضعيف العذاب" أقول: لا خلاف أن الكفار مكلفون بالإيمان، وهل هم مكلفون بالفروع كالصلاة والزكاة؟ فيه ثلاثة مذاهب.. والثاني: لا، وهو مذهب جمهور الحنفية والإسفرائيني من الشافعية."

(‌‌الباب الثاني: فيما لا بد للحكم منه وهو الحاكم والمحكوم عليه وبه‌‌، الفصل الثالث: في المحكوم به، ‌‌المسألة الثانية، ص:73، ط:دار الكتب العلمية)

الإحکام  في أصول الأحکام  للآمدي    میں ہے:

"فلا تكليف قبل الإيمان، وهو المطلوب."

( الأصل الثالث في المحكوم فيه وهو الأفعال المكلف بها، ج:1، ص:145، ط: المکتب الاسلامی بیروت )

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے:

"سوال (37) ہنودکے سودی روپیہ سے مسجد وعیدگاہ تیارکراناجائز ہے یانہیں ؟ اوراس میں نمازدرست ہے یانہیں ؟

الجواب: کفارکے حق میں سودحرام نہیں ہے کیونکہ وہ مکلف فروعات کے نہیں ہیں ، لہذاان سے چندہ لے کرمسجدوعیدگاہ بنانادرست ہے اورنمازاس میں درست ہے۔"

( فتاوی دارالعلوم دیوبند، سود، قماراوربیمہ کابیان،ج:14، ص:481،   ط:دارالاشاعت )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505102005

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں