بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حالتِ حیض میں دینی تعلیم دینا


سوال

 کیا حالتِ حیض میں  معلمہ طالبات کو سبق سکھا سکتی ہیں یا زبانی تلاوت کرسکتی  ہیں اور  قرآنِ کریم کو صرف  دیکھ کر بچوں کو سبق سکھانا کیسا ہے ؟

جواب

قرآنِ مجید  کی تعلیم دینے والی خواتین  اور سیکھنے والی طالبات کے لیے بھی مخصوص ایام میں قرآنِ مجید کو پکڑنا اور تلاوت کرنا جائز نہیں ہے، البتہ قرآنِ مجید  کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنے کی صورت یہ ہے کہ وہ قرآنی آیات کو مکمل نہ پڑھیں، بلکہ کلمہ کلمہ، لفظ لفظ الگ الگ کرکے پڑھیں، یعنی ہجے کرکے پڑھیں، مثلا: الحمد۔۔۔۔ للہ۔۔۔۔ رب۔۔۔ العالمین، مخصوص ایام میں خواتین کے لیے ہجے کرکے پڑھنا جائز ہے، البتہ مکمل آیت کا پڑھنا جائز نہیں، نیز یہ حکم  پڑھانے والی اور پڑھنے والی دونوں کے لیے ہے۔

یہ یاد رہے کہ قرآن مجید کو  براہِ راست بغیر غلاف کے  ہاتھ لگانا اس حالت میں جائز نہیں، ہاں قاعدہ اور نماز کی کتاب وغیرہ  کو ہاتھ لگایا جاسکتا ہے۔اسی طرح  قرآن کریم کے سوا دوسری کتابیں، جیسے : وہ کتبِ تفاسیر جن میں تفسیر غالب ہو ،کتبِ احادیث،اور کتبِ فقہ  وغیرہ کو چھونا اور پڑھنا جائز ہے، لیکن ان کتابوں میں بھی جہاں آیت لکھی ہو  وہاں ہاتھ لگانا جائز نہیں ۔

اگر معلمہ ایام سے ہو تو وہ بچیوں سے سبق اور منزل وغیرہ زبانی سن سکتی ہے، اسی طرح مصحف بچی پکڑے اور معلمہ اس میں دیکھ کر سنے اس کی بھی گنجائش ہے۔ اسی طرح اگر حفظ بھولنے کا اندیشہ ہو تو فقہاءِ کرام  نے یہ صورت لکھی ہے کہ حافظہ کسی پاک کپڑے وغیرہ سے مصحف کو پکڑ کر اس میں دیکھ کر دل دل میں دہراتی جائے، زبان سے بالکل بھی تلفظ نہ کرے، اس کی بھی گنجائش ہے، اور اس سے حفظ کی ضرورت پوری ہوسکتی ہے۔

'' فتاوی شامی'' میں ہے:

''وقد جوّز أصحابنا مس كتب التفسير للمحدث ولم يفصلوا بين كون الأكثر تفسيراً أو قرآناً، ولو قيل به اعتباراً للغالب لكان حسناً''۔(1/177۔دارالفکر)

''مراقی الفلاح'' میں ہے:

''قوله : ( إلا التفسير ) في الأشباه: وقد جوّز بعض أصحابنا مسّ كتب التفسير للمحدث ولم يفصلوا بين كون الأكثر تفسيراً أو قرآناً، ولو قيل به اعتباراً للغالب لكان حسناً۔ وفي الجوهرة: كتب التفسير وغيرها لا يجوز مس مواضع القرآن منها وله أن يمس غيرها''۔(1/95)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وَإِذَا حَاضَتْ الْمُعَلِّمَةُ فَيَنْبَغِي لَهَا أَنْ تُعَلِّمَ الصِّبْيَانَ كَلِمَةً كَلِمَةً وَتَقْطَعُ بَيْنَ الْكَلِمَتَيْنِ، وَلَايُكْرَهُ لَهَا التَّهَجِّي بِالْقُرْآنِ. كَذَا فِي الْمُحِيطِ". (الْفَصْلُ الرَّابِعُ فِي أَحْكَامِ الْحَيْضِ وَالنِّفَاسِ وَالِاسْتِحَاضَةِ،الْأَحْكَامُ الَّتِي يَشْتَرِكُ فِيهَا الْحَيْضُ وَالنِّفَاسُ ثَمَانِيَةٌ، ١/ ٣٨)

حاشية رد المحتار على الدر المختار (1/ 293):

’’( وقراءة قرآن ) أي ولو دون آية من المركبات لا المفردات؛ لأنه جوز للحائض المعلمة تعليمه كلمةً كلمةً، كما قدمناه وكالقرآن التوراة والإنجيل والزبور ... (ومسه) أي القرآن ولو في لوح أو درهم أو حائط، لكن لا يمنع إلا من مس المكتوب، بخلاف المصحف؛ فلا يجوز مس الجلد وموضع البياض منه، وقال بعضهم: يجوز، وهذا أقرب إلى القياس، والمنع أقرب إلى التعظيم، كما في البحر، أي والصحيح المنع كما نذكره، ومثل القرآن سائر الكتب السماوية كما قدمناه عن القهستاني وغيره‘‘.

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111200486

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں