بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حالتِ سفر میں نماز سے متعلق ایک سوال


سوال

کوئی عورت امریکہ سے بیس پچیس دن والدین رشتے داروں سے ملنے پاکستان جاتی ہے، اس کا میکہ سیالکوٹ ہے، لیکن اسے سیالکوٹ کے علاوہ لاہور، سرگودھا ،چکوال اور اسلام آباد رشتے داروں سے ملنے بھی جانا ہو ،کہیں تین دن، کہیں دو دن، کہیں چار دن رہائش مقصود ہو، لیکن میکہ (سیالکوٹ)ہی اصل ٹھکانہ ہو تو ایسی صورت میں کیا قصر نماز ہوگی ؟اگر ہوگی تو کہاں کہاں قصر اور کہاں پوری پڑھی جائے گی؟ مکمل ٹور پندرہ دن سے زیادہ ہے (یعنی پچیس سے تیس دن ) تو کیا اس صورت میں مسافر کہلائے گی ؟ضمناً یہ بھی بتائیں کہ اگر ماضی میں قصر نمازیں لاعلمی کی وجہ سے پوری پڑھ لی ہوں اور تعداد یاد نہ ہو تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟

جواب

1۔ واضح رہے کہ شادی ہونے کے بعد جب عورت اپنے شوہر کے گھر رہنے چلی جاتی ہے تو والدین کا گھر اُس کا گھر شمار نہیں ہوتا، لہذا صورتِ مسئولہ میں جب سائلہ امریکہ سے اپنے والدین کے گھر سیالکوٹ میں پندرہ دن سے کم رہنے کے لیے آئی    تو وہ اپنے میکے یعنی سیالکوٹ میں قصر نماز پڑھے گی، اسی طرح  لاہور، سرگودھا، چکوال اور اسلام آباد میں مسافر ہوگی اور قصر نمازیں پڑھے گی۔

2۔ جو قصر نمازیں لاعلمی کی وجہ سے مکمل پڑھ لی ہیں، تو ان کا اعادہ اُسی نماز کے وقت کے اندر اندر واجب تھا ، وقت گزرنے کے بعد اعادہ لازم نہیں ہے ۔

(وَفَائِتَةُ السَّفَرِ وَالْحَضَرِ تُقْضَى رَكْعَتَيْنِ وَأَرْبَعًا) فِيهِ لَفٌّ وَنَشْرٌ أَيْ فَائِتَةُ السَّفَرِ تُقْضَى رَكْعَتَيْنِ وَفَائِتَةُ الْحَضَرِ تُقْضَى أَرْبَعًا؛ لِأَنَّ الْقَضَاءَ بِحَسَبِ الْأَدَاءِ.

( تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق : كتاب الصلوة ، باب صلاة المسافر، (٢١٥/١) ط: القاهرة، بيروت)

الدر المختار مع رد المحتار ميں هے:

(صَلَّى الْفَرْضَ الرُّبَاعِيَّ رَكْعَتَيْنِ) وُجُوبًا لِقَوْلِ ابْنِ عَبَّاسٍ: إنَّ اللَّهَ فَرَضَ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّكُمْ صَلَاةَ الْمُقِيمِ أَرْبَعًا، وَالْمُسَافِرِ رَكْعَتَيْنِ ، وَلِذَا عَدَلَ الْمُصَنِّفُ عَنْ قَوْلِهِمْ قَصَرَ؛ لِأَنَّ الرَّكْعَتَيْنِ لَيْسَتَا قَصْرًا حَقِيقَةً عِنْدَنَا بَلْ هُمَا تَمَامُ فَرْضِهِ وَالْإِكْمَالُ لَيْسَ رُخْصَةً فِي حَقِّهِ بَلْ إسَاءَةٌ. قَوْلُهُ وُجُوبًا، فَيُكْرَهُ الْإِتْمَامُ عِنْدَنَا حَتَّى رُوِيَ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ أَنَّهُ قَالَ: مَنْ أَتَمَّ الصَّلَاةَ فَقَدْ أَسَاءَ وَخَالَفَ السُّنَّةَ.

(الدر المختار مع رد المحتار: كتاب الصلاة ، باب صلاة المسافر، 2/ 123 ط: سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"فلو أتم مسافر إن قعد في القعدة الأولیٰ تم فرضه ولکنه أساء، لو عامداً ؛ لتاخیر السلا م، وترک واجب القصر، وواجب تکبیرة افتتاح لنقل، وخلط النفل بالفرض و هذا لایحل."

(باب صلوة المسافر، ج:2، ص:128، ط:ايج ايم سعيد) 

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح میں ہے:

"وحكم الواجب استحقاق العقاب بتركه عمدا وعدم إكفار جاحده والثواب بفعله ولزوم سجود السهو لنقض الصلاة بتركه سهوا وإعادتها بتركه عمد أو سقوط الفرض ناقصا إن لم يسجد ولم يعد.

 قوله: "إستحقاق العقاب" هو دون عقاب ترك الفرض قوله: "والثواب بفعله" هو الحكم الأخروي وأما الحكم الدنيوي فهو سقوط المطالبة قوله: "وإعادتها بتركه عمدا" أي ما دام الوقت باقيًا وكذا في السهو ان لم يسجد له وإن لم يعدها حتى خرج الوقت تسقط مع النقصان." 

(فصل في بيان واجبات الصلوة، ص:247/48، ط:مكتبه رشيديه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311101870

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں