بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حالتِ خضاب سے کیا مراد ہے؟


سوال

حالتِ خضاب سے کیا مراد ہے؟

جواب

خضاب کا مطلب ہے کہ ’’کوئی تیل یا سفوف جو بالوں کو سیاہ کرے، سفید بالوں کو سیاہ کرنے کی دوا‘‘۔

(از: فیروز اللغات، اردو ، ص: 591، ط: فیروز اینڈ سنز)

حالتِ خضاب کا معنیٰ ہوا کہ ایسی حالت جس میں سفید بالوں کو سیاہ کیا گیا ہو، تاہم واضح رہے کہ خالص کالے رنگ کاخضاب لگاناگناہ ہے، احادیثِ مبارکہ میں اس کی ممانعت اور سخت وعیدآئی ہے، چناں چہ ابوداودشریف کی روایت میں ہے:’’حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہماارشادفرماتے ہیں: جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آخری زمانہ میں کچھ لوگ ہوں گے جوسیاہ خضاب لگائیں گے،جیسے کبوترکاسینہ،ان لوگوں کوجنت کی خوشبوبھی نصیب نہ ہوگی‘‘۔  صرف حالتِ جہاد میں دشمن کو مرعوب رکھنے اور اس کے سامنے جوانی اور طاقت کے اظہار کے لیےفقہاء نے کالا خضاب استعمال کرنے کی  اجازت دی ہے، اس کے علاوہ حالات میں خالص سیاہ خضاب لگانا جائزنہیں ہے۔ لہذا سیاہ رنگ کے خضاب کااستعمال درست نہیں ۔سیاہ رنگ کے علاوہ کسی بھی رنگ (مثلاً سرخ ، یاسیاہی مائل رنگ)کاخضاب لگاسکتے ہیں۔

صحیح مسلم میں ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے والد ابوقحافہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے گئے اس حال میں کہ ان کے سر اور داڑھی کے بال سفید تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اسے (سفید بالوں کو) کسی چیز (خضاب وغیرہ) سے تبدیل کردو ، البتہ کالے رنگ سے اجتناب کرنا۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن جابر قال: أتي النبي-صلی اللہ علیه وسلم- بأبي قحافة یوم فتح مکة ورأسه ولحیته کالثغامة بیاضاً، فقال النبي-صلی اللہ علیه وسلم-: غیروا هذا بشيء، و اجتنبوا السواد."

(کتاب اللباس والزینة، باب استحباب خضاب الشیب بصفرة أو حمرة وتحریمه بالسواد، رقم الحدیث: 2102، ج: 3، ص: 1663، ط: دار إحياء التراث العربي)

سنن نسائی میں ہے:

"والأمر للوجوب، وترك الواجب یوجب الوعید. وروی أبو داؤد، والنسائي عن ابن عباس عن النبي-صلی اللہ عليه وسلم-قال:’’ یکون قوم في آخر الزمان یخضبون بهذا السواد کحواصل الحمام لایریحون رائحة الجنة‘‘."

(کتاب الزینة، النهي عن الخضاب بالسواد، رقم: 9293، ج: 8، ص: 326، ط: مؤسسة الرسالة)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وأما الخضاب بالسواد فمن فعل ذلك من الغزاة؛ لیکون أهیب في عین العدو فهو محمود منه، اتفق علیه المشائخ. ومن فعل ذلك لیزید نفسه للنساء أو لحبب نفسه إلیهن فذلك مکروه، و علیه عامة المشائخ. وبعضهم جوز ذلك من غیر کراهة."

(كتاب الكراهية، الباب العشرون في الزينة واتخاذ الخادم للخدمة، ج: 5، ص: 359، ط: دارالفکر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144405100840

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں