بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حالت جنگ کے علاوہ کالاخضاب استعمال کرنا


سوال

 میں ملک سے باہر ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازمت کرتا ہوں، جہاں غیر مسلموں کی تعداد مسلمانوں سے کہیں زیادہ ہے اور یہاں پاکستانی بھی نہ ہونے کے برابر ہیں، میں 40 سال کا ہوں اور میرے تقریبا سارے سر کے اور داڑھی کے بال سفید ہو چکے ہیں۔

میرا سوال یہ ہے کہ آج یہاں ایک ڈاکٹر صاحب  نے جن کی خود بھی شرعی داڑھی ہے  مجھے کہا  کہ  حالتِ جہاد میں دشمن کو مرعوب رکھنے اور اس کے سامنے جوانی اور طاقت کے اظہار کے لیے کالا خضاب استعمال کرنے کی اجازت ہے اور ہم بھی یہاں غیر مسلموں کے درمیان جاب کر رہے ہیں تو ہمیں بھی اپنے آپ کو اسی  طرح مینٹین رکھنا چاہیے؛ کیونکہ ہم مسلمانوں کی اور اپنے ملک کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ مطلب وہ بالوں کو رنگنے کا مشورہ دے رہے تھے، کیا مجھے اوپر بیان کی گئی صورت حال میں بالوں کو کالا رنگ سے رنگنے کی اجازت ہوگی یا میں اجتناب ہی کروں ؟

جواب

صورت مسئولہ میں مذکورہ ڈاکٹر صاحب کا  بالوں پر کالاخضاب لگانے کے لئے حالت امن کو حالت جنگ پر قیاس  کرناغلط ہے ،حالتِ جنگ کے علاوہ  خالص کالے رنگ کاخضاب لگاناشرعاجائز نہیں  ہے،احادیثِ  مبارکہ میں اس کی ممانعت اور سخت وعیدآئی ہے،  صرف حالتِ  جہاد میں دشمن کو مرعوب رکھنے اور اس کے  سامنے  طاقت کے اظہار کے لیے کالا خضاب استعمال کرنے کی  اجازت دی گئی ہے۔

البتہ خالص کالے رنگ کے علاوہ دیگر رنگوں کے خضاب لگانا جائز ہے،اسی طرح  آج کل بازار میں دست یاب بالوں کے  جدید کلر (رنگ)  کا بھی یہی حکم  ہے یعنی خالص سیاہ (کالا) کلر  بالوں پر لگانا ناجائز ہے، جب کہ کالے رنگ کے علاوہ دوسرے کلر مثلاً خالص براؤن ،  سیاہی مائل براؤن یا سرخ(لال) کلر لگانا جائز ہے۔نیز  مرد کے لیے سر اور ڈاڑھی کے بال سفید ہوجانے کی صورت میں سیاہ رنگ کے علاوہ مہندی کا خضاب لگانے کو فقہاءِ کرام  نے  سنت  لکھا  ہے۔

سنن ابی داود میں ہے:

"عن سعيد بن جبير عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : "يكون قوم ‌يخضبون في آخر الزمان بالسواد كحواصل الحمام، لا يريحون رائحة الجنة."

(اول کتاب الترجل،باب ما جاء في خضاب السواد،ج:6،ص:272،ط:دار الرسالة العالمية)

ترجمہ:ابوداودشریف کی روایت میں ہے: ’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماارشادفرماتے ہیں: جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:آخری زمانہ میں کچھ لوگ ہوں گے جوسیاہ خضاب لگائیں گے،جیسے کبوترکاسینہ،ان لوگوں کوجنت کی خوش بوبھی نصیب نہ ہوگی‘‘۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن جابر بن عبد الله، قال: أتي بأبي قحافة يوم فتح مكة ورأسه ولحيته كالثغامة بياضا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «غيروا هذا بشيء، واجتنبوا السواد."

(کتاب اللباس و الزینة، باب فی صبغ الشعر و تغییر الشیب ج:3،ص: 1663ط:دار احیاء التراث العربی)

"ترجمہ:حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ حضرت ابوقحافہ رضی اللہ عنہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ  اقدس میں  اس حال میں لائے گئےکہ ان کے سر اورداڑھی کے بال ثغامہ( ایک گھاس ہے جس کے پھل پھول سب سفید ہوتے ہیں )  کی طرح سفید ہوچکے تھے، تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اس (سفیدی) کو کسی چیز(یعنی  کسی رنگ) سے بدل ڈالو، البتہ(خالص)سیاہ رنگ سے پرہیز کرو۔"

فتاوی شامی میں ہے:

"يستحب للرجل خضاب شعره ولحيته ولو في غير حرب في الأصح، والأصح أنه عليه الصلاة والسلام لم يفعله، ويكره بالسواد، وقيل لا مجمع الفتاوى والكل من منح المصنف..

(قوله خضاب شعره ولحيته) لا يديه ورجليه فإنه مكروه للتشبه بالنساء (قوله والأصح أنه عليه الصلاة والسلام لم يفعله) لأنه لم يحتج إليه، لأنه توفي ولم يبلغ شيبه عشرين شعرة في رأسه ولحيته، بل كان سبع عشرة كما في البخاري وغيره. وورد: أن أبا بكر رضي الله عنه خضب بالحناء والكتم مدني."

(کتاب الحظر والاباحة،‌‌فصل في البيع ،ج:6،ص:422،ط:سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"اتفق المشايخ رحمهم الله تعالى أن الخضاب في حق الرجال بالحمرة سنة، و أنه من سيماء المسلمين و علاماتهم، و أما الخضاب بالسواد فمن فعل ذلك من الغزاة؛ ليكون أهيب في عين العدو فهو محمود منه، اتفق عليه المشايخ رحمهم الله تعالى. و من فعل ذلك ليزين نفسه للنساء و ليحبب نفسه إليهن فذلك مكروه، وعليه عامة المشايخ."

(کتاب الکراہیة،الباب العشرون في الزينة واتخاذ الخادم للخدمة،ج:5،ص:359،ط:دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507102218

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں