بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حالتِ جنابت میں سحری کی تو روزے کا حکم


سوال

اگر غسل واجب ہو اور سحری پہلے کر لیں اور غسل بعد میں نماز سے پہلےتو  روزہ ہوگا یا نہیں؟

جواب

 اگر کوئی شخص جنابت (ناپاکی) کی حالت میں ہو اور سحری کرنا چاہتا ہو تو اس کے لیے بہتر تو  یہی ہے کہ غسل  کرکے سحری کرے ، اگر غسل کا وقت نہ ہو  یا کوئی عذر ہو تو وضو یا کلی وغیرہ کرکے سحری کرلینی چاہیے، اس لیے کہ جنابت کی حالت میں سحری کرنا منع نہیں ہے، لہذاجس شخص  پر غسل واجب  ہو اور وہ صبح صاد ق سے پہلے غسل نہ کرسکے  اور سحری کرکے روزہ  رکھ لے تو اس کا روزہ درست ہے،   ناپاک ہونے کی وجہ سے  روزہ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔  البتہ  غسل میں اتنی تاخیر کرنا کہ  فجر کی  نماز قضا ہوجائے گناہ کا باعث ہے۔ بصورتِ مسئولہ اگر فجر کے وقت کے اندر اندر غسل کرکے نماز ادا کرلی تو درست کیا۔ 

اور روزے کی حالت میں غسل  کا وہی طریقہ ہے جو عام حالات میں ہے، البتہ روزہ کی وجہ سے ناک میں اوپر تک پانی ڈالنا اور   کلی میں غرارہ کرنا درست نہیں ہے، اس لیے کہ ناک میں پانی چڑھانے سے یا غرارہ کرنے میں پانی حلق سے نیچے اتر گیا تو اس سے روزہ فاسد ہوجائے گا، لہذا  صرف  کلی کرلے اور ناک میں پانی ڈال لے توغسل صحیح ہوجائے گا، افطاری کے بعد غرارہ کرنے یاناک میں پانی چڑھانے کی ضرورت  بھی نہیں ہوگی۔

وفي الدر المختار وحاشية ابن عابدين:

"(أو أصبح جنبًا و) إن بقي كل اليوم ... (لم يفطر)". (رد المحتار2/ 400ط:سعيد)

وفي الفتاوى الهندية:

"الجنب إذا أخر الاغتسال إلى وقت الصلاة لايأثم، كذا في المحيط". (1/ 16ط:دار الفكر)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144209200217

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں