بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حالتِ جنابت میں کھانے پینے اور دیگر کام کرنے کا حکم


سوال

 ہم راولپنڈی میں رہتے ہیں اور یہاں پانی کا بہت مسئلہ ہے، اکثر غسل واجب ہو جاتا ہے، لیکن پانی نہیں آتا یا گھنٹہ،دوگھنٹہ لیٹ ہوتا ہے،تو کیا ایسی صورت میں صرف وضو کر کے کھانا پینا اور باقی کام کرنا صحیح ہوگا کہ جب پانی آئے تو غسل کر لیں؟

جواب

واضح رہے کہ جس شخص کو جنابت یعنی غسل کی حاجت ہو  یعنی وہ ناپاک ہو، تو یہ ناپاکی ایسی نہیں کہ اس شخص کے بدن پر ناپاکی کے احکام جاری ہوں ،بلکہ یہ ناپاکی حکماً ہے یعنی نماز پڑھنے،مسجد میں داخل ہونے ،قرآن کریم کی تلاوت کرنے کے اعتبار سے تو وہ شخص ناپاک ہے،مگر کھانے پینے یا اور کوئی بھی کام کرنے کے سلسلے میں کوئی حرج  نہیں ہوتا،لہٰذ ا صورت ِ مسئولہ میں صرف ہاتھ منہ دھو کر یا وضو کرکے  کھانا پینا یا دوسرے امور انجام دینا درست ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولا بأس) لحائض وجنب (بقراءة أدعية ومسها وحملها وذكر الله تعالى، وتسبيح) وزيارة قبور، ودخول مصلى عيد (وأكل وشرب ‌بعد ‌مضمضة، ‌وغسل يد) وأما قبلهما فيكره لجنب.

وفي الرد: قال في الخلاصة: إذا أراد الجنب أن يأكل فالمستحب له أن يغسل يديه ويتمضمض. اهـ تأمل. وذكر في الحلية عن أبي داود وغيره «أنه عليه الصلاة والسلام إذا أراد أن يأكل وهو جنب غسل كفيه» وفي رواية مسلم «يتوضأ وضوءه للصلاة»."

(كتاب الطهارة، باب الحيض،ج:1، ص:293،294، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508100548

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں