بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حالتِ اکراہ میں تحریری طلاق دینے کا حکم


سوال

2اگست 2014ء کو میرا نکاح ہوا،میراچارسال کا ایک بیٹا بھی ہے، میں اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ اپنے سسرال گیا،میری بیوی وہاں سےمیرے ساتھ واپس نہیں آئی،پھر26دسمبر2018ء کو مجھ سے جبراًایک مجلس میں تین بار صرف"طلاق،طلاق،طلاق"لکھواکر مجھ سے" واٹس ایپ "پربھجوادیا گیا(بیوی کو)،یہ مجھ سےمیری بیوی کی والدہ اوربھائی نے میرے دماغ کو ٹارچر کرکےاورڈرادھمکاکےکرایا،وہ لوگ میرے ساتھ کچھ بھی کرسکتے تھے،میں نے زبان سے طلاق کے الفاظ استعمال نہیں کیے تھے،اب وہ لوگ مجھے اپنی اور بچے سے ملنے نہیں دیتے ہیں بلکہ بیٹے سے فون پر بھی بات کرنے نہیں دے رہےاور کہتے ہیں کہ:"وہ دونوں تم پرحرام ہوچکے ہیں ،اب تم ان سے  نہیں  مل سکتے"،میں اللہ اورقرآن کی قسم کھاکر بول رہاہوں کہ مجھ سے جبراً طلاق لکھوایاگیا،میں طلاق نہ دینا چاہتا تھا اور نہ ہی میرا ارادہ تھااور نہ اب ارادہ ہے،براہ کرم مجھے بتائیں کہ میری بیوی پرتین  طلاقیں  واقع ہوئی ہیں یا نہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کی ساس اور سالےنے سائل کو مذکورہ الفاظ نہ لکھنے کی صورت میں جان سے مارنے کی  یا کسی عضو کو تلف کرنے کی یا سخت پٹائی کرنے کی دھمکی دی تھی اوروہ دونوں اس پر قادر بھی تھے اور سائل کو اس بات کا خوف بھی تھا کہ اگر میں یہ نہیں لکھوں گا تو وہ لوگ یہ کام کر گزریں گےاورسائل نے مجبور ہوکر "طلاق،طلاق،طلاق"کے الفاظ لکھ کر اپنی بیوی کوبھیج دیےاور زبان سے کچھ بھی نہ کہا  تو ایسی صورت میں سائل کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی،سائل اورسائل کی بیوی کا نکاح بدستور برقرارہے۔

اوراگرسائل کی ساس اور سالے نے سائل کو جان سے مارنے یا کسی عضو کے تلف کرنے کی دھمکی نہیں دی تھی یا دھمکی دی تھی لیکن وہ دونوں اس پر قادر نہیں تھے تو ایسی صورت میں مذکورہ میسیج بھیجنے کی وجہ سے سائل کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں،اب رجوع جائز نہیں اور دوبارہ نکاح بھی نہیں ہوسکتا،سائل کی بیوی اپنی عدت (پوری تین ماہوریاں اگر حاملہ نہ ہو،اور اگر حاملہ ہو تو بچہ کی پیدائش تک)گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔

نیز اپنے بیٹے  سے وقتاًفوقتاً ملنایافون پرباتیں کرنا ،سائل کی دینی ،اخلاقی اور قانونی حق ہے ،سائل کے سسرال والوں کا سائل کو اس سے منع کرنا ظلم ہے۔

الدر مع الرد میں ہے:

"الإكراه (هو لغة حمل الإنسان على) شيء يكرهه وشرعا (فعل يوجد من المكره فيحدث في المحل معنى يصير به مدفوعا إلى الفعل الذي طلب منه) وهو نوعان تام وهو الملجئ بتلف نفس أو عضو أو ضرب مبرح وإلا فناقص وهو غير الملجئ. (وشرطه) أربعة أمور: (قدرة المكره على إيقاع ما هدد به سلطانا أو لصا) أو نحوه (و) الثاني (خوف المكره) بالفتح (إيقاعه) أي إيقاع ما هدد به (في الحال) بغلبة ظنه ليصير ملجأ (و) الثالث: (كون الشيء المكره به متلفا نفسا أو عضوا أو موجبا غما يعدم الرضا) وهذا أدنى مراتبه وهو يختلف باختلاف الأشخاص فإن الأشراف يغمون بكلام خشن، والأراذل ربما لا يغمون إلا بالضرب المبرح ابن كمال (و) الرابع: (كون المكره ممتنعا عما أكره عليه قبله) إما (لحقه) كبيع ماله (أو لحق) شخص (آخر) كإتلاف مال الغير (أو لحق الشرع) كشرب الخمر والزنا۔۔۔۔ وفيه بعد اسطر(وصح نكاحه وطلاقه وعتقه) لو بالقول لا بالفعل كشراء قريبه ابن كمال."

(كتاب الاكراه،6/128/129،ط:سعید)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق  میں ہے:

"قال - رحمه الله - (وشرطه قدرة المكره على تحقيق ما هدد به سلطانا كان أو لصا أو خوف المكره وقوع ما هدد به) يعني شرط الإكراه الذي هو فعل كما تقدم؛ لأن الإكراه اسم لفعل يفعله الإنسان بغيره فينتفي به رضاه أو يفسد به اختياره مع بقاء الأهلية ولا يتحقق ذلك إلا من القادر عند خوف المكره؛ لأنه يصير به ملجئا وبدون ذلك لا يصير ملجئا وما روي عن الإمام أن الإكراه لا يتحقق إلا من السلطان فذلك محمول على ما شهد في زمانه من أن القدرة والمنعة منحصرة في السلطان وفي زمانهما كان لكل مفسد له قوة ومنعة لفساد الزمان فأفتيا على ما شهدا وبه يفتى؛ لأنه ليس فيه اختلاف يظهر في حق الحجة وفي المحيط وصفة المكره وهو أن يغلب على ظنه أنه يوقع ذلك به لو لم يفعل، ولو شك أنه لا يفعل ما توعد به لم يكن مكرها؛ لأن غلبة الظن معتبرة عند فقد الأدلة اهـ."

(کتاب الاکراہ،شرط الاکراہ،دارالکتاب الاسلامی)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"وفي البحر أن المراد الإكراه على التلفظ بالطلاق، فلو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لا تطلق ؛لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا كذا في الخانية."

(کتاب الطلاق،مطلب في الإكراه على التوكيل بالطلاق والنكاح والعتاق،3/336،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"(قوله كتب الطلاق إلخ) قال في الهندية: الكتابة على نوعين: مرسومة وغير مرسومة، ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرا ومعنونا مثل ما يكتب إلى الغائب. وغير المرسومة أن لا يكون مصدرا ومعنونا، وهو على وجهين: مستبينة وغير مستبينة، فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه يمكن فهمه وقراءته. وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء وشيء لا يمكنه فهمه وقراءته. ففي غير المستبينة لا يقع الطلاق وإن نوى، وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق وإلا لا، وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو ثم المرسومة لا تخلو إما أن أرسل الطلاق بأن كتب: أما بعد فأنت طالق، فكما كتب هذا يقع الطلاق وتلزمها العدة من وقت الكتابة. وإن علق طلاقها بمجيء الكتاب بأن كتب: إذا جاءك كتابي فأنت طالق فجاءها الكتاب فقرأته أو لم تقرأ يقع الطلاق كذا في الخلاصة ط."

(کتاب الطلاق،مطلب فی الطلاق بالکتابۃ،3/246،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"كرر لفظ الطلاق وقع الكل، وإن نوى التأكيد دين.وفي الرد:(قوله كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق، وإذا قال: أنت طالق ثم قيل له ما قلت؟ فقال: قد طلقتها أو قلت هي طالق فهي طالق واحدة ‌لأنه ‌جواب، كذا في كافي الحاكم.(قوله وإن نوى التأكيد دين) أي ووقع الكل قضاء، وكذا إذا اطلق أشباه: أي بأن لم ينو استئنافا ولا تأكيدا لأن الأصل عدم التأكيد."

(کتاب الطلاق،باب طلاق غیر المدخول بھا،ج3،ص293،ط:سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل -فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة."

(کتاب الطلاق ،فصل فی حکم الطلاق البائن ،ج3،ص187،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ."

(کتاب الطلاق،الباب السادس  فی الرجعۃوفیما تحل بہ،فصل  فیما تحل بہ المطلقۃ وما  یتصل بہ،ج1،ص473،ط:دارالفکر)

وفیہ ایضاً:

"الولد متى كان عند أحد الأبوين لا يمنع الآخر عن النظر إليه وعن تعاهده كذا في التتارخانية ناقلا عن الحاوي."

(کتاب الطلاق، الباب السادس عشر في الحضانۃ،ج1،ص543،ط:دارالفکر)

خیر الفتاوٰی میں اسی قسم کے ایک  سوال  کے جواب  میں ہے:

"والد کو بچوں سے ملنے نہ دینا ظلم ہے،وقتاًفوقتاًبچوں سے ملاقات کرنا والد کا قانونی،شرعی اور اخلاقی  حق ہے۔۔۔الخ۔"

(باب الحضانۃ،ج6،ص106،مکتبہ امدادیہ ،ملتان)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144306100415

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں