بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حالتِ حیض میں جماع کے علاوہ بیوی سے استمتاع کا حکم


سوال

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" فرج میں جماع کے سوا( اختلاط و مباشرت) سب کچھ کرو اس سے کیا مراد ہے ۔۔۔ (جائزہے۔)"۔

جواب

 صورتِ مسئولہ میں سائل نے جس روایت کا ذکر کیا ہے،وہ روایت کچھ اس طرح ہے،" اصنعوا ‌كل ‌شيء ‌إلا ‌الجماع"،اور یہ بھی ہے کہ"اصنعوا ‌كل شيء إلا النكاح"اور  اس سے مراد  یہ ہے کہ حالت حیض میں بیوی سے جماع کرنے سے  منع کیا ہے،  اس کے علاوہ کی اجازت دی  ہے، لیکن اس کے علاوہ ہر شے  کی اجازت سے مراد یہ نہیں کہ فرج  میں جماع کے علاوہ فرج کے ساتھ بلا حائل اختلاط کا جواز ہے، بل کہ  حیض و نفاس کی حالت میں فرج میں بلا حائل  بل کہ ناف سے لے کر گھٹنوں تک کے حصے سے بلا حائل اختلاط و استمتاع شرعاً منع ہے، تاکہ یہ اختلاط اصل حرام میں   مبتلا ہونے کا باعث نہ بنے،جیسا کہ محدثین اور فقہاء کرام نے اس کی تصریح فرمائی ہیں،الغرض ناف سے لے کر گھٹنے تک بغیر حائل کے لطف اندوز ہونا حرام اور  ناجائز ہے، البتہ  ناف سے لے کر گھٹنوں سمیت حصے کے علاوہ جسم کے دیگر حصوں سے بلاحائل لطف اندوز ہونے  (بوس و کنار، اور لپٹ کر سونے) کی اجازت ہے، اسی طرح ناف سے لے کر گھٹنوں کے درمیانی حصے میں موٹا کپڑا حائل ہو، جس سے جسم کی حرارت محسوس نہ ہو تو بھی شرم گاہ داخل کیے بغیر نفع اٹھانے کی اجازت ہے۔

مذکورہ حدیث کا پس منظر اور اس کے مکمل الفاظ سامنے رکھنے سے اور رسول اللہ ﷺ کے عمل سے  مذکورہ بالا تفصیل واضح ہوجاتی ہے، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہودی اس طرح کرتے تھے کہ ان کے ہاں عورت کو حیض آتا تو وہ اس کے ساتھ کھانا پینا بھی ترک کردیتے تھے اور ان کے ساتھ ایک کمرے میں بھی نہیں رہتے تھے، آپ ﷺ کے صحابہ نے آپ ﷺ سے اس بارے میں پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: و یسئلونک عن المحیض ۔۔۔ الایۃ، اور آپ ﷺ نے فرمایا: سب کچھ کرو مگر جماع نہیں کرو، (یعنی ایک کمرے میں رہنا اور ساتھ کھانا پینا ترک نہ کرو)، یہودیوں کو جب یہ خبر ملی تو انہوں نے کہا کہ یہ صاحب (یعنی رسول اللہ ﷺ)  کسی بھی چیز میں ہماری مخالفت  کیے بغیر نہیں چھوڑتے،  حضرت اسید بن حضیر اور عباد بن بشر رضی اللہ عنہما نے یہ بات سنی تو رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ یہودی اس اس طرح کی بات کر رہے ہیں، کیا ہم ان کے ساتھ رہن سہن نہ رکھیں؟ رسول اللہ ﷺ کا چہرہ مبارک متغیر ہوگیا یہاں تک کہ ہم (حضرت انس اور صحابہ) سمجھے کہ  آپ ﷺ ان دونوں (اسید بن حضیر اور عباد بن بشر) پر غصہ ہوئے ہیں، وہ دونوں رسول اللہ ﷺ کی مجلس سے چلے گئے، اور اسی وقت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں دودھ کا ہدیہ آیا تو آپ ﷺ نے ان دونوں کے پیچھے پیچھے وہ ہدیہ  ان کے پینے کے لیے بھیجا تو ہم سمجھ گئے کہ رسول اللہ ﷺ ان پر غصہ نہیں ہوئے۔ (رواہ مسلم)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جب میں حیض کی حالت میں ہوتی تھی تو  رسول اللہ ﷺ مجھے ازار باندھنے کا حکم دیتے تھے، میں  ازار باندھ لیتی تھی، پھر آپ ﷺ مجھ سے ملتے تھے۔ (متفق علیہ)

حاشیۃ السندی علی سنن ابن ماجہ میں ہے:

"عن أنس «أن اليهود كانوا لا يجلسون مع الحائض في بيت ولا يأكلون ولا يشربون قال فذكر ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم فأنزل الله {ويسألونك عن المحيض قل هو أذى فاعتزلوا النساء في المحيض} [البقرة: 222] فقال رسول الله صلى الله عليه وسلماصنعوا ‌كل ‌شيء ‌إلا ‌الجماع»

قوله (اصنعوا ‌كل ‌شيء ‌إلا ‌الجماع) تفسير للآية وبيان أن ليس المراد بالاعتزال مطلق المجانبة بل مجانبة مخصوصة وأخذ بظاهره بعض العلماء فجوزوا المباشرة بلا إزار وحملوا فعله صلى الله عليه وسلم على المندوب والجمهور على أنه لا بد من الإزار ورجح النووي الأول دليلا نعم الثاني أحوط وأولى كما لا يخفى والله أعلم."

(کتاب الطهارۃ وسننها، باب ما جاء في مؤاكلة الحائض وسؤرها، ج:1، ص:222، ط: دار الجيل)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن أنس: « أن اليهود كانوا إذا حاضت المرأة فيهم لم يؤاكلوها ولم يجامعوهن في البيوت، فسأل أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم النبي صلى الله عليه وسلم، فأنزل الله تعالى: {ويسألونك عن المحيض قل هو أذى فاعتزلوا النساء في المحيض} إلى آخر الآية، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ‌اصنعوا ‌كل شيء إلا النكاح، فبلغ ذلك اليهود، فقالوا: ما يريد هذا الرجل أن يدع من أمرنا شيئا إلا خالفنا فيه، فجاء أسيد بن حضير وعباد بن بشر فقالا: يا رسول الله، إن اليهود تقول: كذا وكذا، فلا نجامعهن، فتغير وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى ظننا أن قد وجد عليهما، فخرجا فاستقبلهما هدية من لبن إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فأرسل في آثارهما فسقاهما، فعرفا أن لم يجد عليهما »."

(‌‌كتاب الحيض، ج:1، ص:169، ط: دار الطباعة العامرة)

فتاویٰ  شامی  میں  ہے:

"(وقربان ما تحت إزار) يعني ما بين سرة وركبة ولو بلا شهوة، وحلّ ما عداه مطلقًا..... (قوله: و قربان ما تحت إزار) من إضافة المصدر إلى مفعوله، و التقدير: ويمنع الحيض قربان زوجها ما تحت إزارها كما في البحر (قوله يعني ما بين سرة وركبة) فيجوز الاستمتاع بالسرة وما فوقها والركبة وما تحتها ولو بلا حائل، و كذا بما بينهما بحائل بغير الوطء و لو تلطخ دمًا، و لايكره طبخها و لا استعمال ما مسته من عجين أو ماء أو نحوهما إلا إذا توضأت بقصد القربة كما هو المستحب فإنه يصير مستعملا.وفي الولوالجية: ولا ينبغي أن يعزل عن فراشها؛ لأن ذلك يشبه فعل اليهود بحر. وفي السراج: يكره أن يعزلها في موضع لا يخالطها فيه. هذا، واعلم أن المصرح به عندنا في كتاب الحظر والإباحة أن الركبة من العورة، ومقتضاه كما أفاده الرحمتي حرمة الاستمتاع بالركبة لاستدلالهم لهم هنا بقوله عليه الصلاة والسلام: «ما دون الإزار» ومحله العورة التي يدخل فيها الركبة تأمل."

(کتاب الطهارۃ، باب الحیض، ج:1، ص:292، ط: سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: وقربان ما تحت الإزار) أي ويمنع الحيض ‌قربان ‌زوجها ما تحت إزارها، أما حرمة وطئها عليه فمجمع عليها لقوله تعالى {ولا تقربوهن حتى يطهرن} [البقرة: 222] ووطؤها في الفرج عالما بالحرمة عامدا مختارا كبيرة لا جاهلا ولا ناسيا ولا مكرها فليس عليه إلا التوبة والاستغفار."

(کتاب الطهارۃ، باب الحیض، ج:1، ص:207، ط: دار الكتاب الإسلامي)

تبیین الحقائق میں ہے:

"قال رحمه الله (وقربان ما تحت الإزار) أي ويمنع الحيض ‌قربان ‌زوجها ما تحت إزارها لقوله تعالى {ولا تقربوهن حتى يطهرن} [البقرة: 222] وتحرم المباشرة ما بين السرة والركبة عند أبي حنيفة وأبي يوسف وقال محمد يجوز له الاستمتاع منها بما دون الفرج لقوله تعالى {ويسألونك عن المحيض قل هو أذى فاعتزلوا النساء في المحيض} [البقرة: 222] والمحيض هو موضع الحيض وهو الفرج ولقوله عليه الصلاة والسلام «اصنعوا ما شئتم إلا الجماع» ولنا قوله عليه الصلاة والسلام «للذي سأله عما يحل له من امرأته وهي حائض، لك ما فوق الإزار» وقوله عليه الصلاة والسلام لعائشة «شدي عليك إزارك» إذ لو كان الممنوع موضع الدم لا غير لم يكن لشد الإزار معنى فإن وطئها في الحيض يستحب أن يتصدق بدينار أو نصف دينار ولا يجب ذلك، وقيل إن كان في أول الحيض يستحب له أن يتصدق بدينار وإن كان في آخره فبنصف دينار ويستغفر الله تعالى ولا يعود، وقيل إن كان الدم أسود يتصدق بدينار وإن كان أصفر فبنصف دينار وكل ذلك ورد في الحديث."

(کتاب الطهارۃ، باب الحیض، ج:1، ص:57، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144508100432

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں