بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حالت حمل میں بیوی کے ساتھ ہمبستری کرنے کا حکم


سوال

جب  حمل ٹھہر جائے تو ہم بستری کب تک کی جاسکتی ہے؟

جواب

حالتِ حمل میں کسسی بھی وقت بیوی سے ہم بستری کرنا جائز ہے، البتہ اگر کوئی ماہر طبیب یا ڈاکٹر  کسی عذر کی بنا پر احتیاط کا مشورہ دے تواحتیاط کرنا بہتر ہے۔

شرح مسند ابی حنیفۃ میں ہے:

"(عن نافع عن ابن عمر قال نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌أن ‌توطأ ‌الحبالى) بفتح أي عن مجامعة الحوامل من الأسارى أو غيرهن (حتى يضعن ما في بطونهن) أي من أولادهن فإن الاستبراء والعدة لا تحصل إلا بوضعهن، وأما أزواجهن فيجوز لهم جماعهن، والنهي لئلا يسقي ماءه زرع غيره."

(حديث وطء الحامل، ج:1، ص:190، ط:دار الكتب العلمية)

البناية شرح الهداية میں ہے:

"ولو كان الحمل من الزنا من الزوج فالنكاح جائز عند الكل، ويحل له ‌وطؤها وتستحق النفقة عند الكل."

(كتاب النكاح، فصل في بيان المحرمات في النكاح، نكاح المرأة وعدة الرابعة قبل انقضائها، ج:5، ص:57، ط:دار الكتب العلمية)

فتح القدیر میں ہے:

"رجل تزوج حاملا من زنا منه فالنكاح صحيح عند الكل، ويحل ‌وطؤها عند الكل."

(‌‌كتاب النكاح، فصل في بيان المحرمات، ج:3، ص:241، ط:دار الفكر)

فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:

"إذا أقر الزوج أن ‌الحبل ‌منه فالنكاح صحيح بالاتفاق، وهو غير ممنوع من وطئها."

(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الأول في نفقة الزوجة، ج:1، ص:546، ط:دار الفکر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"أن البالغة إذا كانت لا تحتمل لا يؤمر بدفعها إلى الزوج أيضا، فقوله لا تحتمل يشمل ما لو كان لضعفها أو هزالها أو لكبر آلته. وفي الأشباه من أحكام غيبوبة الحشفة فيما يحرم على الزوج وطء زوجته مع بقاء النكاح قال: وفيما إذا كانت لا تحتمله لصغر أو مرض أو سمنة...فعلم من هذا كله أنه لا يحل له وطؤها بما يؤدي ‌إلى ‌إضرارها ‌فيقتصر على ما تطيق منه."

(‌‌كتاب النكاح، باب القسم بين الزوجات، ج:3، ص:204، ط:سعيد)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

"سوال: حاملہ بیوی سے وطی کرنا کیسا ہے؟ اگر جائز ہے تو وضعِ حمل سے کتنے دن پہلے چھوڑدینا چاہیے؟

الجواب حامداً ومصلیاً:

شوہر کو حاملہ سے وطی کرنا درست ہے، علاوہ ان ایام کے جب کہ وطی بچہ کو مضر ہو اور اس سلسلے میں حکیم حاذق سے معلوم کرلیا جاوے کہ کب وطی بچہ کو مضر ہوتی ہے؟فقط واللہ اَعلم"

(کتاب الطہارت، حیض ونفاس اور استحاضہ کا بیان، ج:5، ص:207، ط:ادارۃ الفاروق)

فقط واللہ اَعلم


فتوی نمبر : 144503101859

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں