اگر خاتون حاملہ ہو جائے تو پہلے بچے کو ماں کا دودھ پلانے کے حوالے سے کیا حکم ہے ؟ ابھی بچی کی عمر صرف ساڑھے نو ماہ ہے، بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر حاملہ خاتون بچے کو دودھ پلائے تو دودھ بچے کو نقصان دیتا ہے۔ مہربانی فرما کر اس حوالے سے رہنمائی کر دیں ۔
صورتِ مسئولہ میں شرعی اعتبار سے دوبارہ ماں بننے والی عورت کے لیے اپنے پہلے ساڑھے نو ماہ کی بچی کو دودھ پلانے کی کوئی ممانعت نہیں ہے، البتہ اگر ماہر دین دار طبیب /ڈاکٹر حاملہ ہونے کی وجہ سے دودھ کے خراب ہونے اور دودھ پینے والے بچی کی صحت پر اثر پڑنےکے اندیشے کی وجہ سے اس حال میں دودھ پلانے سے منع کرے، تو اس کی رائے پر عمل کرنا درست ہوگا اور اس صورت میں دودھ نہ پلانے میں بھی کوئی حرج نہیں ہوگا، حاصل یہ ہے کہ حالتِ حمل میں بچے کو دودھ پلانا ناجائز نہیں، البتہ طبی اعتبار سے کسی نقصان کا اندیشہ ہوتو دودھ پلانے سے احتراز کرنا درست ہوگا۔
مشکاۃ المصابیح میں ہے :
"عن سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ : ان رجلا جاء الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال: انی اعزل عن إمرأتي ، فقال له رسول الله صلي الله عليه وسلم: لم تفعل ذلك؟ فقال الرجل : اشفق علي ولدها، فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم : لو كان ضارا ضرفارس والروم."
(کتاب النکاح ،باب المباشرۃ ،ج:2،ص:208،بشری)
مرقاۃ المفاتیح میں ہے :
"(فقال رجل : أشفق) أي أخاف (علي ولدها) أي الذي في البطن لئلايصير توأمين فيضعف كل منهما، أو علي ولدها الذي ترضعه لماسيأتي أن الجماع يضره۔ وقيل: أي أخاف إن لم أعزل عنهالحملت وحينئذ يضر الولد الإرضاع في حال الحمل (فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم: لو كان ذلك ) أي الجماع حال الارضاع أو الحبل( ضارا ضر فارس والروم ) أي أولادهما، يعني ترضع نساء الفرس والروم أولادهن في حال الحمل، فلو كان الإرضاع في حال الحمل مضرا لأ ضر اولادهن ."
(کتاب النکاح ،باب المباشرۃ ،ج:6،ص:317،دارالکتب العلمیۃ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144508101555
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن