بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حالتِ حمل میں دی گئی طلاق کا حکم


سوال

اگر شوہر جا نتا ہو کہ اس کی بیوی امید سے ہے اور اس کے باوجود  وہ اس کو ایک طلاق دیتا ہے   تو اس طلاق کی شرعی حثییت کیا ہو گی؟  آیا وہ ایک طلاق مانی جائے گی یا نہیں؟ اگر ہاں تو رجوع کا طریقہ کیا ہو گا؟

جواب

واضح رہے کہ حالتِ حمل میں دی جانے والی طلاق بھی واقع ہو جاتی ہے، لہذا صورتِ  مسئولہ میں اگر شوہر نے اپنی بیوی کو حمل کی حالت میں  ایک  (صریح) طلاق  دی ہو  تو بیوی پر ایک  طلاقِ رجعی واقع  ہوجائے گی،   پھر  ایسی عورت کی عدت وضع حمل تک رہتی ہے، اس کے بعد  اگر میاں بیوی   باہمی رضامندی سے دوبارہ ساتھ رہنا چاہتے ہوں تو شوہر عدت میں رجوع کر سکتا ہے، رجوع کا طریقہ یہ ہے کہ شوہر یوں کہہ دے کہ:  میں نے رجوع کیا یا میں رجوع کرتا ہوں، ایسا کہہ لینے سے رجوع ہو جائے گا، اور رجوع پر گواہ بنالینا مستحب ہے۔

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

" عن الحسن ومحمد قالا : إذا کانت حاملاً طلّقها متی شاء "۔

( المصنف لابن أبي شیبة، ما قالوا في الحامل کیف تطلق، ۹؍۵۱۳ رقم :۱۸۰۴۵ ، ط: المجلس العلمي  )

فتاوی شامی میں ہے:

"(وحل طلاقهن) أي الآيسة والصغيرة والحامل".

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين(3/ 232) کتاب الطلاق، ط: سعید)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208201338

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں