بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حالتِ حمل میں عدالت سے خلع لینا


سوال

عورت حمل کے دوران عدالت  میں جا کے اپنے شوہر سے خُلع لینا چاہے تو کیا ایسا کرنا صحیح ہو گا؟

جواب

شریعت میں عقدِ نکاح کو ختم کرنے کے جو طریقے ہیں، ان میں ایک طریقہ خلع بھی ہے، اگر عورت شوہرکے ساتھ رہنے پر راضی نہیں ہے اور شوہر اسے طلاق بھی نہیں دیتا تو اسے اختیار ہے کہ اپنا حقِ مہر واپس کرکے یا کچھ مال بطور فدیہ دے کر شوہرکو رضامند کرکے خلع حاصل کرے، جیساکہ قرآنِ کریم کی آیت کا ترجمہ یہ ہے:

"سواگرتم لوگوں کو (یعنی میاں بیوی کو) یہ احتمال ہو کہ وہ دونوں ضوابطِ خداوندی کوقائم نہ کرسکیں گے تو دونوں پر کوئی گناہ نہیں ہوگا کہ اس (مال لینے دینے میں) جس کو دے کر عورت اپنی جان چھڑالے۔"

(بیان القرآن،سورۃ البقرۃ،1/133)

خلع کے لیے میاں بیوی دونوں کی رضامندی ضروری ہے، اگردونوں میں سے ایک بھی رضامند نہ ہو تو پھرخلع واقع نہیں ہوگا۔

اب اگر کوئی خاتون حالتِ حمل میں عدالت سے خلع لینا چاہتی ہے تو حمل کی حالت میں بھی خلع لینا جائز ہو گا، لیکن عام طور پر عدالت سے لیے ہوئے خلع میں شوہر کی رضامندی شامل نہیں ہوتی اور یہ واضح کیا جا چکا کہ خلع میں شوہر کی رضا ضروری ہے؛ لہذا اس شرط کا خیال رکھا جائے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110200711

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں