بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حالت حیض میں جماع کے بعد کفارہ کی عدمِ استطاعت کا حکم


سوال

اگر کوئی شخص بیوی سےحالتِ حیض میں مباشرت کرے اور اس کی کفارہ ادا کرنے کی حیثیت نہ ہو تووہ شخص کیا کرے؟

جواب

حالتِ حیض میں جماع کرنا حرام و ناجائز ہے، اگر زوجین نے باہمی رضامندی سے اس گناہ کا راتکاب  کرلیا ہے تو دونوں گناہ کبیرہ کے مرتکب ٹھہرے ہیں ، دونوں پر لازم ہے کہ استغفارکریں، اور شوہر کے لیےبہتر یہ ہے کہ اس کے بعد کچھ صدقہ کرے؛ تاکہ نیکی سے گناہ دھل جائیں۔حدیث مبارک میں  ایک دینار (4.374  گرام سونے کا سکہ) یا آدھا دینار (یا اس کی قیمت) صدقہ کرنے کے حکم وارد ہوا ہے، لیکن فقہائے کرام کے نزدیک صدقہ کرنالازم نہیں بلکہ مستحب  ہےاورصاحبِ استطاعت کے لیےہے، لہذا سائل کو چاہیے کہ جو چیز بھی صدقہ کرنے کی استطاعت رکھتاہو،وہ صدقے میں دے دے،لیکن اگروہ صدقہ کرنے کی بالکل استطاعت نہیں رکھتا تو توبہ و استغفار  بہر صورت اس پر اور بیوی پر لازم ہے۔ 

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم في الذي ‌يأتي ‌امرأته ‌وهي ‌حائض، قال: يتصدق بدينار أو بنصف دينار ."

(كتاب الطهارة، باب كفارة من أتى حائضاً، رقم الحديث:640، ج:1، ص:120، ط:دار إحياء الكتب العربية)

ترجمہ: "حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جوشخص بھی حائضہ عورت سے ہم بستری کرلے وہ ایک یا آدھا دینار صدقہ کرے ۔"

مبسوط سرخسی میں ہے:

"فأما جماع الحائض في الفرج حرام بالنص يكفر مستحله ويفسق مباشره لقوله تعالى{فاعتزلوا النساء في المحيض}  ، وفي قوله تعالى{ولا تقربوهن حتى يطهرن}، دليل على أن الحرمة تمتد إلى الطهر وقال - صلى الله عليه وسلم -: «من أتى امرأة في غير مأتاها أو أتاها في حالة الحيض أو أتى كاهنا فصدقه بما يقول فقد كفر بما أنزل الله على محمد - صلى الله عليه وسلم -» ولكن لا يلزمه بالوطء سوى التوبة والاستغفار ومن العلماء من يقول: إن وطئها في أول الحيض فعليه أن يتصدق بدينار وإن وطئها في آخر الحيض فعليه أن يتصدق بنصف دينار وروى فيه حديثا شاذا ولكن الكفارة لا تثبت بمثله."

(كتاب الاستحسان، باب جماع الحائض في الفرج، ج:10، س:159، ط:دارالمعرفة)

فتاوی شامی میں ہے:

" (و) هو كبيرة لو عامدا مختارا عالما بالحرمة لا جاهلا أو مكرها أو ناسيا فتلزمه التوبة ويندب تصدقه بدينار أو نصفه. ومصرفه كزكاة وهل على المرأة تصدق؟ قال في الضياء: الظاهر لا.

وفي الرد:(قوله: ويندب إلخ) لما رواه أحمد وأبو داود والترمذي والنسائي عن ابن عباس مرفوعا «في الذي يأتي امرأته وهي حائض، قال: يتصدق بدينار أو نصف دينار» ثم قيل إن كان الوطء في أول الحيض فبدينار أو آخره فبنصفه، وقيل بدينار لو الدم أسود وبنصفه لو أصفر. قال في البحر: ويدل له ما رواه أبو داود والحاكم وصححه «إذا واقع الرجل أهله وهي حائض، إن كان دما أحمر فليتصدق بدينار، وإن كان أصفر فليتصدق بنصف دينار» . اهـ (قوله قال في الضياء إلخ) أي الضياء المعنوي شرح مقدمة الغزنوي، وأصل البحث للحدادي في السراج، ويؤيده ظاهر الأحاديث. وظاهرها أيضا أنه لا فرق بين كونه جاهلا بحيضها أو لا."

(كتاب الطهارة، باب الحيض،ج:1، ص:198،ط:ايچ ايم سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144312100315

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں