بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حالتِ حیض میں طلاق کی صورت میں عدت کا حکم


سوال

شوہر نے بیوی کو صریح الفاظ میں طلاق دے دی، وہ تو ہوجائے گی، جب اس کو طلاق ہوئی اس وقت وہ ایام میں تھی، تو کتنی عدت گزارے گی؟

جواب

حالتِ حیض میں طلاق دینا مکروہِ تحریمی اور ناجائز ہے، فقہ حنفی میں اس کو "طلاقِ بدعی" کہا جاتا ہے، یعنی وہ طلاق جو سنت کے خلاف ہے، کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے حالتِ حیض میں طلاق دینے سے منع فرمایا ہے،لیکن اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دے تو طلاق واقع ہوجاتی ہے  اور اگر ایک یا دو طلاقِ رجعی دی ہوں تو گناہ کی تلافی کے لیے رجوع کرنا چاہیے، اگر رجوع نہیں کیا تو جس حیض میں طلاق دی گئی ہے وہ حیض عدت میں شمار نہیں ہوگا، اس کے بعد کامل تین حیض عدت ہوں گے۔

وفي الفتاوى الهندية :

" (والبدعي) من حيث الوقت أن يطلق المدخول بها وهي من ذوات الأقراء في حالة الحيض أو في طهر جامعها فيه وكان الطلاق واقعا ويستحب له أن يراجعها والأصح أن الرجعة واجبة هكذا في الكافي."

(کتاب الطلاق ج نمبر ۱ ص نمبر ۳۴،دار الفکر)

وفيه أيضًا:

"إذا طلق امرأته في حالة الحيض كان عليها الاعتداد بثلاث حيض كوامل ولاتحتسب هذه الحيضة من العدة، كذا في الظهيرية". (1 / 527ط:دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203200971

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں