بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حالتِ حیض میں اکٹھی تین طلاقیں دینے کا حکم


سوال

حالتِ حیض میں اکٹھی تین طلاقوں کا کیا حکم ہے؟

جواب

ائمہ اربعہ اور جمہور علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو حالتِ حیض میں  طلاق دے  تو اس کی طلاق واقع ہوجاتی ہے، اور یہی راجح ہے، اسی طرح بیک وقت تین طلاقیں دینے سے بھی تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں، البتہ حیض کی حالت میں طلاق دینا یا بیک وقت تین طلاقیں دینا ناجائز اور گناہ ہے، لیکن حرام ہونے کے باوجود  طلاق واقع ہوجاتی ہے۔

 فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(وأما البدعي) فنوعان: بدعي لمعنى يعود إلى العدد وبدعي لمعنى يعود إلى الوقت (فالذي) يعود إلى العدد أن يطلقها ثلاثًا في طهر واحد أو بكلمات متفرقة أو يجمع بين التطليقتين في طهر واحد بكلمة واحدة أو بكلمتين متفرقتين فإذا فعل ذلك وقع الطلاق وكان عاصيًا. (والبدعي) من حيث الوقت أن يطلق المدخول بها وهي من ذوات الأقراء في حالة الحيض أو في طهر جامعها فيه وكان الطلاق واقعًا، ويستحب له أن يراجعها والأصح أن الرجعة واجبة هكذا في الكافي". (1/349، ط: رشیدیہ)

         اور فقہ  کا مشہور قاعدہ ہے:

     "وحرمة الفعل لاتنافي ترتب الأحكام". (أصول الشاشي، 1 / 185، ط:  دار الکتاب العربي)

التفسير المظهري   میں ہے:

"(مسألة) - الطلاق فى الحيض يقع طلاقًا إجماعًا خلافًا للإمامية قالوا: لايقع أصلا- وعندنا يقع لكنه حرام إجماعًا". (1 / 304، ط: رشدیہ)

         زاد المسير في علم التفسير  میں ہے:

"والطلاق البدعي: أن يقع في حال الحيض، أو في طهر قد جامعها فيه، فهو واقع، وصاحبه آثم". (4 / 296، دار الكتاب العربي – بيروت)

         أحكام القرآن للجصاصمیں ہے:

"وما قدمنا من دلالة الآية والسنة والاتفاق يوجب إيقاع الطلاق في الحيض وإن كان معصيةً". (2 / 86،دار إحياء التراث العربي، بيروت)  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107201133

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں