حالتِ حیض میں کلام الناس کے طور پر عورت آ یت کی کتنی مقدار پڑھ سکتی ہے ؟دلائل کی روشنی میں مطلوب ہے ،اور اس کا ضابطہ کیا ہوگا ؟
آپ کےسوال کامقصد یہ ہے کہ حالتِ حیض میں عورت دعا کے مضمون پر مشتمل قرآنی آیات کوبطورِ دعا یا بطور وظیفہ پڑھ سکتی ہے یا نہیں ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ عورت کے لیے حیض کے ایام میں قرآن کریم کی ان آیات کو جو دعا کے مضمون پر مشتمل ہوں ہاتھ لگائے بغیربطورِ دعا یا وظیفہ پڑھنا جائز ہے،البتہ یہ یاد رہے کہ اس حالت میں براہِ راست قرآن کریم کو بلا حائل ہاتھ لگانا جائز نہیں ، اور جن آیات میں دعا کا معنیٰ نہیں اُن آیات کو غیر قرآن کی نیت سے پڑھنا درست نہیں ہو گا ۔
فتاوی شامی میں ہے:
"فلو قرأت الفاتحة على وجه الدعاء أو شيئا من الآيات التي فيها معنى الدعاء ولم ترد القراءة لا بأس به كما قدمناه عن العيون لأبي الليث وأن مفهومه أن ما ليس فيه معنى الدعاء كسورة أبي لهب لا يؤثر فيه قصد غير القرآنية".
(رد المحتار، کتاب الحیض، ج:1 / ص:293، ط: سعید)
مجمع الأنہر میں ہے:
"(ولا قراءة القرآن ولو دون آية إلا على وجه الدعاء أو الثناء) بأن لم يقصد القراءة فيقول: الحمد لله شكرا للنعمة فحينئذ يجوز بلا كراهة، وكذا قراءة الفاتحة على وجه الدعاء هو المختار".
(مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر، كتاب الطهارة، ج:1 / ص:26، ط: دار إحياء التراث العربي)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144401100311
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن