بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حلق سے پہلے حجرِ اسود کو بوسہ دینا


سوال

عمرہ ادا کرنے میں صرف بال کا قصر  یا  منڈوانا باقی ہو، اورحجراسود کو اچھی طرح بوسہ دیں ، تو دم واجب ہوگا یا  نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ جب تک عمرہ ادا کرنے والا  حلق یا قصر نہ کروالے وہ محرم (حالتِ احرام) ہی رہتا ہے، اور  حجر اسود پر چوں کہ خوش بو لگی ہوئی ہوتی ہے؛ اس لیے احرام کی حالت میں اس کا بوسہ لینا یا چھونا جائز نہیں ہے، البتہ حالتِ احرام میں حجر اسود کا بوسہ لینے کی وجہ سے دم کے واجب ہونے کا مدار کثرت پر ہے، یعنی اگر خوش بو  زیادہ لگ گئی تو دم واجب ہوگا اور اگر قلیل مقدار میں لگی ہے تو  صدقہ کرنا لازم ہوگا،دم واجب نہیں ہوگا،قلیل اور کثیر کے معیار کے بارے میں متعدد اقوال ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ حجر اسود کا بوسہ لینے کی صورت میں دیکھا جائے گا کہ اگر نفسِ خوش بو  کی مقدار زیادہ ہو تو ہتھیلی کے چوتھائی حصے پر وہ خوش بو  لگنے سے بھی دم واجب ہوجائے گا، لیکن اگر نفسِ خوش بو   کی مقدار کم ہو تو کامل عضو (مکمل ہتھیلی) پر لگنے کی صورت میں دم لازم ہوگا اور اس سے کم میں صدقہ لازم ہوگا۔

المحيط البرهانی میں ہے:

"وقال في المحرم: إذا مس الطيب أو استلم الحجر فأصاب يده خلوق، إن كان ما أصابه كثير فعليه الدم."

(‌‌كتاب المناسك‌‌، الفصل الخامس: فيما يحرم على المحرم بسبب إحرامه وما لا يحرم، ج:2، ص:453، ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"فإذا استعمل الطيب فإن كان كثيراً فاحشاً ففيه الدم، وإن كان قليلاً ففيه الصدقة، كذا في المحيط. واختلف المشايخ في الحد الفاصل بين القليل والكثير، فبعض مشايخنا اعتبروا الكثرة بالعضو الكبير نحو الفخذ والساق، وبعضهم اعتبروا الكثرة بربع العضو الكبير، والشيخ الإمام أبو جعفر اعتبر القلة والكثرة في نفس  الطيب، إن كان الطيب في نفسه بحيث يستكثره الناس ككفين من ماء الورد وكف من الغالية والمسك بقدر ما استكثره الناس فهو كثير، وما لا فلا، والصحيح أن يوفق ويقال: إن كان الطيب قليلاً فالعبرة للعضو لا للطيب، حتى لو طيب به عضواً كاملاً يكون كثيراً يلزمه دم وفيما دونه صدقة، وإن كان الطيب كثيراً فالعبرة للطيب لا للعضو، حتى لو طيب به ربع عضو يلزمه دم، هكذا في محيط السرخسي والتبيين."

(كتاب المناسك وفيه سبعة عشر بابا، الباب الثامن في الجنايات وفيه خمسة فصول،الفصل الأول فيما يجب بالتطيب والتدهن، ج:1، ص:240، ط:دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101163

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں