بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حلق / قصر سے پہلے عمرہ کا احرام ختم کرنا


سوال

سر میں نے عمرہ کی ادائیگی کی اور غلطی سر زدہو گئی کہ  بال نہیں کٹوائے احرام اتار دیا ،اب میرے لیے کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ عمرہ کے ارکان ادا کرنے کے بعد احرام کھولنے کے ليے حلق یا قصر ضروری ہے، بغیر حلق یا قصر کے محض احرام کی چادریں کھولنے سے اور سلے ہوئے کپڑے وغیرہ پہننے کی وجہ سے احرام کھولنا شمار نہیں ہوتا ، البتہ مذکورہ افعال ممنوعات احرام کی وجہ سے جنایت شمار ہوں گے، جس کی وجہ سے دم لازم ہوگا۔

صورتِ مسئولہ میں سائل فی الحال بھی احرام میں ہے یعنی حلق یا قصر نہیں کیا ہے(جیسے کہ سوال سے بھی یہی ظاہر ہورہا ہے) تو مکہ مکرمہ جاکر حدودِ حرم میں حلق یا قصر کرائے،  باقی اگر حلق یا  قصر سے پہلے یعنی حالتِ احرام میں ممنوعاتِ احرام(مثلاًسلے ہوئے کپڑے پہننا یا خوشبو وغیرہ لگانا یا دیگر خلافِ احرام امور) کا ارتکاب کیا ہےتو اس  کی وجہ سے ہر جنایت پر ایک دم ضرور لازم ہوگا، لہذا جنایات کی تفصیل تحریر کرکےاس کے مطابق حکم معلوم کیا جاسکتا ہے۔

اسی طرح سائل کے لیے حدود حرم میں جانا ممکن نہ ہو اور وہ حدود حرم سے باہر  حلق یا قصر کرتا ہے، تو حدودِ حرم کے علاوہ میں حلق یا قصر کرنے کی وجہ سے بھی دم لازم ہوگا۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"أن الحلق أو التقصير، واجب لما ذكرنا فلا يقع التحلل إلا بأحدهما و لم يوجد فكان إحرامه باقيا فإذا غسل رأسه بالخطمي فقد أزال التفث في حال قيام الإحرام فيلزمه الدم، والله أعلم".

(کتاب الحج، فصل الحلق أو التقصير، ج:2، ص:140، ط: دار الکتب العلمية)

الفتاویٰ التاتارخانیہ میں ہے:

"وفي حق المعتمر لایختص بالزمان أو المکان بلاخلاف و في الهدایة : و التقصیر و الحلق في العمرة غیر مؤقتة بالزمان بالإجماع فإن لم یقصر حتی رجع و قصر فلاشیئ علیه في قولهم جمیعاً".

(کتاب الحج، في الحلق والقصر، ج:2، ص:544، ط: إدارۃ القرآن)

فتاویٰ شامی (الدر المختار ورد المحتار) میں ہے:

"واعلم أن المحرم إذا نوى رفض الإحرام فجعل يصنع ما يصنعه الحلال من لبس الثياب والتطيب والحلق والجماع وقتل الصيد فإنه لا يخرج بذلك من الإحرام، وعليه أن يعود كما كان محرما، ويجب دم واحد لجميع ما ارتكب ولو كل المحظورات، وإنما يتعدد الجزاء بتعدد الجنايات إذا لم ينو الرفض، ثم نية الرفض إنما تعتبر ممن زعم أنه خرج منه بهذا القصد لجهله مسألة عدم الخروج، وأما من علم أنه لا يخرج منه بهذا القصد فإنها لا تعتبر منه. اهـ".

(کتاب الحج، باب الجنايات في الحج، ج:2، ص:553، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم

 


فتوی نمبر : 144404101450

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں