بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حلالہ کی شرط پر شوہر کا اپنی مطلقہ مغلظہ بیوی کا نکاح کسی دوسرے شخص سے کروانا جائز نہیں ہے


سوال

زید نے اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاق دے دیں اور تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں۔

اب زید اپنی طلاق یافتہ بیوی کا نکاح اس شرط پر کسی دوسرے شخص سے کروارہا ہے وہ ایک بار وطی کے بعد اسے طلاق دے دے تو پھر زید اس سے عدت گزرنے کے بعد دوبارہ نکاح کرلے،اب زید یہ جاننا چاہتا ہے کہ حلالہ کا یہ طریقہ جو میں نے ذکر کیا ہے کیا شریعت کے مطابق ہے یا نہیں؟ اگر یہ طریقہ غلط ہے تو آسان لفظوں میں اسلام کے عین اصول کے مطابق بیان کردیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں زید کا اپنی مطلقہ مغلظہ بیوی کا نکاح کسی دوسرے شخص کے ساتھ بشرط التحلیل کرنا(یعنی اس شرط پر   نکاح کرنا کہ دوسرا شوہر  بعدعقدِ نکاح ازدواجی تعلق قائم ہوجانے کے بعد اس کو طلاق دے کر پہلے شوہر کے لیے چھوڑ دے گا) شرعاً ناجائز اور حرام ہے،اور حدیث کی رُو سے موجبِ لعنت اور ناجائز فعل ہے،  نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسا کرنے والے اور جو شخص ایسا کروا رہا ہے دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔لہذا اس عمل کو طے کرکے کروانا جائز نہیں ہے۔شریعت کے مطابق مُطلقہ مُغلظہ  عدت گزرنے کے بعد (پہلے شوہر کی شرکت کے بغیر) ازخود کسی دوسری جگہ طلاق دینے کی شرط کے بغیر نکاح کرے، خواہ اُس کےدل میں نیت ہو، اس کے بعد اس کا شوہر زن و شو کا تعلق قائم کرنے کے بعد ازخوداسے طلاق دے دے یا اس کا انتقال ہوجائے ، یا عورت اُس سے خلع لے لے،تو دوسرے شوہر کی عدت گزرنے کے بعد  یہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال متصورہوگی۔

بہر کیف عورت کانکاح  مذکورہ بالا دونوں صورتوں میں کسی بھی طریقے کے مطابق ہو،دوسرے شوہر سےبعد نکاح  زن و شو کا تعلق قائم ہوجائے اور پھرعلیحدگی ہوجائے تو عدت گزرنے کے بعدعورت  پہلے شوہر کے لیے حلال ہوجائے گی۔

مسند احمد بن حنبل میں ہے:

"عن أبي هريرة، قال: لعن ‌رسول ‌الله صلی اللہ علیه وسلم  المحل، والمحلل له."

(مسند ابی ھریرۃ رضی اللہ عنه جلد ۱۴ ص : ۴۲ ط : مؤسسة الرسالة)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(‌وكره) ‌التزوج للثاني (تحريما) لحديث «لعن المحلل والمحلل له» (بشرط التحليل)كتزوجتك على أن أحللك(وإن حلت للأول) لصحة النكاح وبطلان الشرط فلا يجبر على الطلاق كما حققه الكمال، خلافا لما زعمه البزازي........(أما إذا أضمر ذلك لا) يكره (وكان) الرجل (مأجورا) لقصد الإصلاح وتأويل اللعن إذا شرط الأجر ذكره البزازي (قوله: أما إذا أضمر ذلك) محترز قوله بشرط التحليل (قوله: لا يكره) بل يحل له في قولهم جميعا قهستاني عن المضمرات (قوله: لقصد الإصلاح) أي إذا كان قصده ذلك لا مجرد قضاء الشهوة ونحوها.

و أورد السروجي أن الثابت عادة كالثابت نصًّا أي فيصير شرط التحليل كأنه منصوص عليه في العقد فيكره. و أجاب في الفتح بأنه لايلزم من قصد الزوج ذلك أن يكون معروفا بين الناس، و إنما ذلك فيمن نصب نفسه لذلك و صار مشتهرًا به اهـ تأمل."

(کتاب الطلاق ، باب الرجعة جلد ۳ ص : ۴۱۴، ۴۱۵ ط : دارالفکر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144505101775

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں