ایک آدمی حلالہ کرنے کی نیت سے ایک عورت سے نکاح کرتا ہے تو اس کو کتنے دنوں تک اس عورت کو اپنے ساتھ اپنے نکاح میں رکھنا ضروری ہوتا ہے ؟
نیز عورت کا حلالہ کرنے کی نیت سے نکاح کیا گیا اور پھر طلاق ہوگئی تو اس عورت کی عدت کا خرچ کس کے ذمہ آئے گا؟
واضح رہے کہ طلاق کی شرط کے ساتھ حلالہ کی غرض سے نکاح کرنا مکروہِ تحریمی اور موجب لعنت ہے ،تاہم اگر کوئی اس شرط کے ساتھ نکاح کرے اور ازداوجی تعلق قائم کرکے طلاق دے دے تو بیوی پہلے شوہر کے لیے حلال ہوجاتی ہے، لیکن اگر طلاق کی شرط نہ لگائی جائے اور پہلا شوہر تحلیل کی نیت سے خود دوسری جگہ نکاح نہ کروائے اور دوسرا شخص عورت سے نکاح کرکے ازدواجی تعلقات قائم کرکے از خود طلاق دے دے یا شوہر کا انتقال ہوجائے یا بیوی نکاح کے موقع پر طلاق کا اختیار لے کر اپنے اوپر طلاق واقع کردے تو ایسا کرنا بلا کراہت جائز ہے، دوسرے شوہر سے طلاق کے بعد اس کی عدت گزار کر بیوی کے لیے پہلے شوہر سے نکاح کرنا جائز ہوگا، تاہم دوسرے شوہر سے نکاح کے بعد ازدواجی تعلقات قائم کرنا ضروری ہے ، کسی متعین مدت تک ساتھ رہنا ضروری نہیں ہے۔ پہلے شوہر کے لیے حلال ہونے کی نیت سے کیے گئے نکاح کے بعد دی جانے والی طلاق کی عدت چوں کہ دوسرے شوہر کی وجہ سے لازم ہوئی ، لہذا اس کا نفقہ اور سکنی بھی دوسرے شوہر پر لازم ہوگا ۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(وكره) التزوج للثاني (تحريما) لحديث لعن المحلل والمحلل له (بشرط التحليل) كتزوجتك على أن أحللك(وإن حلت للأول) لصحة النكاح وبطلان الشرط فلا يجبر على الطلاق۔۔۔(أما إذا أضمر ذلك لا) يكره (وكان) الرجل (مأجورا) لقصد الإصلاح، وتأويل اللعن."
(کتاب الطلاق ، باب الرجعة،3/ 414، ط: سعید)
فتاوی شامی میں ہے:
"وتجب لمطلقة الرجعی والبائن والفرقة بلا معصیة کخیارعتق ،وبلوغ وتفریق بعدم کفاءۃ النفقة والسکنی والکسوۃ إن طالت المدۃ۔۔۔۔وفی الرد تحتة۔۔۔۔قوله: وتجب لمطلقة الرجعی والبائن کان علیه ابدال المطلقة بالمعتدۃ،لان النفقة تابعة للعدۃ."
(کتاب الطلاق، باب الرجعة، 3/ 609، ط: سعید )
فتاوی ہندیہ میں ہے :
"المعتدة عن الطلاق تستحق النفقة والسكنى كان الطلاق رجعيّا أو بائنّا أو ثلاثّا حاملاّ كانت المرءة أو لم تكن."
( كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات ، الفصل الثالث في نفقة المعتدة،1/ 557،ط: رشیدیه )
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144307102161
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن