بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مطلقہ ثلاثہ نکاح ثانی کرنے کی صورت میں صرف خلوت صحیحہ سے شوہر اول کے لیے حلال کیوں نہیں ہوتی؟ شوہر ثانی سے تعلقات قائم کرنا کیوں ضروری ہے؟


سوال

حق مہر کے معاملے میں اگر خلوت صحیحہ پائی جاۓ،اگرچہ دخول نہ بھی ہوتو حق مہر پورا دینا واجب ہوتا ہے،وہاں خلوت صحیحہ کو دخول کے قائم مقام کردیا جاتا ہے،مگر مطلقہ ثلاثہ کے نکاح ثانی  کے معاملے میں خلوت صحیحہ دخول کے قائم مقام کیوں نہیں ؟ کیا اس کا کوئی قاعدہ ہے کہ فلاں فلاں جگہ خلوت صحیحہ جماع کے قائم مقام ہوگی؟

جواب

واضح  رہے کہ  نکاح کے بعد خلوت صحیحہ طلاق، مہر وغیرہ کے معاملے دخول/ جماع کے قائم مقام ہے، البتہ مطلقہ ثلاثہ کا نکاح ثانی  اس قاعدے سے مستثنی ہے، اس استثنی کی چند وجوہات  مندرجہ ذیل ہیں:

"الف:واضح رہے فقہاءکرام بہت سے  مقام پر احتیاطاً   سبب کو اصل کا قائم مقام قرار دیتے ہیں، جیسے کہ نیند خروج ریح کا سبب ہے، اور خروج ریح  ناقص وضو ہے، لہذا اگر کسی شخص کو نیند آجاۓ تو خروج ریح  کے سبب  یعنی نیند کے پاۓ جانے کی وجہ  سے فقہاء فرماتے ہے کہ وضو ٹوٹ گیا، بالکل اسی طرح اگر  نکاح کے بعد  مرد عورت کے درمیان  خلوت صحیحہ  ہوجاۓ  اور خلوت کے دوران کسی قسم کا  شرعی، حسی، طبعی  مانع نہ ہو تو تو ایسی خلوت  کو فقہاء کرام مہر اور طلاق   وغیرہ کے احکام  میں   دخول/جماع  کے قائمقام قرار دیتے ہوے فرماتے ہیں  کہ مرد پر مکمل مہر لازم ہوگا، لیکن مطلقہ ثلاثہ کا نکاح ثانی  کی صورت اس قاعدے  سے  قرآن و حدیث کی بناء پر مستثنی ہے،قرآن مجید میں شوہر کے ساتھ نکاح کا ذکر ہے، شوہر کے ساتھ نکاح کرنے سے مراد جماع ہے خلوت نہیں ہے، اور حضرت رفاعہ رضی اللہ عنہ کی بیوی  کی  روایت میں  صراحتاً دخول کو شرط قرار دیا گیاہے، اس لیےاس میں صرف خلوت کافی نہیں ہے بلکہ دخول شرط ہے۔

ب: واضح رہے کہ عورت کا  مقرره مہر مرد پر نفس نکاح سے ہی لازم    ہو جاتا ہے،چناں چہ   میاں بیوی کے باہمی تعلقات  (دخول) قائم ہونے کے بعد یا اس پر قدرت (خلوت صحیحہ) کے بعد مرد پر  مکمل مہر لازم  ہو جاتا ہے، تاہم دخول ہوا ہے یا نہیں یہ جاننا آسانی سے ممکن نہیں ہے، اس لیے  اس کے سبب  یعنی خلوت صحیحہ کو دخول کا قائم مقام بنایا گیا ہے، اور فقہ اسلامی  عمومی طور  پر بہت سے مقام میں احتیاطاً سبب اصل کے قائمقام  ہوتا ہے،   جیسے کہ نیند خروج ریح کا سبب ہے، اور خروج ریح  ناقص وضو ہے، لہذا نیند کو ناقص وضو کا سبب قرار دیا جاۓ گا، خواہ ریح خارج ہو یا نہ ہو، بالکل اسی طرح اگر  نکاح کے بعد مہر کے مکمل  مقدار کے لزوم کے معاملہ میں فقہاء فرماتے ہیں کہ    مرد عورت کے درمیان  اگر  خلوت صحیحہ  ہوجاۓ  اور خلوت کے دوران کسی قسم کا  شرعی، حسی، طبعی  مانع نہ ہو تو وہ  دخول کے قائمقام ہے اور مرد پر مکمل مہر لازم ہوگا،تاہم مطلقہ ثلاثہ کے نکاح ثانی کرنے کی صورت میں  میں نفس نکاح سے عورت حلال نہیں ہوتی، بلکہ دخول ضروری ہوتا ہے ، لہذا وہاں بھی سبب  یعنی خلوت صحیحہ  کو اصل دخول  کے قائمقام قرار دینا احتیاط اور صریح حدیث کے خلاف ہے، اس وجہ سے مطلقہ ثلاثہ کے نکاح ثانی میں صرف سبب کافی نہیں بلکہ اصل کا پایا جانا بھی ضروری ہے، کیوں کہ حدیث میں اس کا صراحتاً ذکر ہے۔

ج۔واضح رہے کہ عورت کا  مقرره مہر مرد پر نفس نکاح سے ہی لازم    ہو جاتا ہے، نکاح کی صورت میں مہر لازم ہونے کی بنیادی وجہ  عورت کی طرف سے مرد کو  اپنے اوپر جائز تصرف کرنے پر قدرت دینا ہے،اور تصرف کے اظہار کے لیے خلوت صحیحہ کافی ہے، اس وجہ سے  مرد پر خلوت صحیحہ سے ہی   مکمل مہر لازم ہوتا ہے، جب کہ  مطلقہ ثلاثہ کے نکاح ثانی میں نفس نکاح  یا تصرف پر قدرت سے مطلقہ ثلاثہ پہلے مرد کے لیے حلال نہیں ہوتی، بلکہ اس میں  دخول ضروری ہے، اس وجہ سے صرف خلوت صحیحہ سے عورت حلال نہیں ہوتی۔"

قرآن کریم میں ہے:

"﴿ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ﴾." [البقرة: 230]

ترجمہ:"اگر بیوی کو تیسری طلاق دے دی  تو جب وہ عورت دوسرے  نکاح  نہ کرلے اس وقت تک وہ پہلے خاوند کے لیے حلال نہ ہوگی۔" (بیان القرآن)

حدیث میں ہے:

"حدثنا ابن أبي عمر وإسحاق بن منصور قالا: حدثنا سفيان بن عيينة ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عائشة قالت: «جاءت امرأة رفاعة القرظي» إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت: إني كنت عند رفاعة،فطلقني فبت طلاقي، فتزوجت عبد الرحمن بن الزبير وما معه إلا مثل هدبة الثوب، فقال: أتريدين أن ترجعي إلى رفاعة؟ لا، ‌حتى ‌تذوقي ‌عسيلته ويذوق عسيلتك."

"وفي الباب عن ابن عمر، وأنس، والرميصاء أو الغميصاء، وأبي هريرة.حديث عائشة حديث حسن صحيح.والعمل على هذا عند عامة أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلموغيرهم؛ أن الرجل إذا طلق امرأته ثلاثا، فتزوجت زوجا غيره فطلقها قبل أن يدخل بها أنها لا تحل للزوج الأول إذا لم يكن جامع الزوج الآخر."

(‌‌سنن الترمذي، أبواب النكاح،باب ما جاء فيمن يطلق امرأته ثلاثا فيتزوجها آخر فيطلقها قبل أن يدخل بها، 411/2، ط:دار الغرب الإسلامي - بيروت)

"ترجمه:ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رفاعہ قرظی کی بیوی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: میں رفاعہ کے نکاح میں تھی۔ انہوں نے مجھے طلاق دے دی اور میری طلاق طلاق بتہ ہوئی ہے(یعنی تین طلاق)۔ پھر میں نے عبدالرحمٰن بن زبیر سے شادی کر لی، ان کے پاس صرف کپڑے کے پلو کے سوا کچھ نہیں ہے(یعنی وہ  کپڑے کی جھالر کی طرح ہے)، آپ نے فرمایا: ”تو کیا تم رفاعہ کے پاس لوٹ جانا چاہتی ہو؟ ایسا نہیں ہو سکتا جب تک کہ تم ان (عبدالرحمٰن) کی لذت نہ چکھ لو اور وہ تمہاری لذت نہ چکھ لیں۔“

امام ترمذی کہتے ہیں:.... صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ آدمی جب اپنی بیوی کو تین طلاق دیدے پھر وہ کسی اور سے شادی کر لے اور وہ دوسرا شخص دخول سے پہلے اسے طلاق دیدے تو اس کے لیے پہلے شوہر سے نکاح درست نہیں جب تک کہ دوسرے شوہر نے اس سے جماع نہ کر لیا ہو۔"

شرح مختصر الطحاوی للجصاص میں ہے:

"كقول النبي صلى الله عليه وسلم للمرأة التي شكت أن زوجها لا يصل غليها. فقال: "أتريدين أن ترجعي إلى رفاعة؟! لا، ‌حتى ‌تذوقي ‌عسيلته، ويذوق عسيلتك". وكان ذلك منه على جهة الإنكار عليها في إرادتها الرجوع إلى زوجها الأول قبل دخول الثاني بها."

(‌‌باب القسامة،47/6، ط: دار البشائر الإسلامية - ودار السراج)

 اعلام الحدیث (شرح صحیح البخاری) میں ہے:

"قال أبو عبد الله: حدثني عبد الله بن محمد، قال: حدثنا سفيان، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة: جاءت امرأة رافعة القرظي إلى النبي، صلى الله عليه وسلم، فقالت: كنت عند رفاعة، فطلقني، فأبت، فتزوجت عبد الرحمن ابن، الزبير وإنما معه مثل هدبة الثوب. فقال: (أتريدين أن ترجعي إلى رفاعة؟! لا، حتى تذوقي عسيلته، ويذوق عسيلتك) وأبو بكر جالس عنده، وخالد بن سعيد بالباب ينتظر أن يؤذن له. فقال: يا أبا بكر، ألا تسمع إلى هذه ما تجهر به عند النبي، صلى الله عليه وسلم. قولها: مثل هدبة الثوب، تريد، أنه لا متعة لها منه، وكأنها ادعت عليه العنة. وقوله: (لا، حتى تذوقي عسيلته)، يريد به الوطء، كنى بالعسيلة عن لذة الجماع."

(کتاب الشہادات،باب شهادة المختبيء،599/2،ط:جامعة أم القرى)

بدائع الصنائع میں ہے:

"أما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: 230] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة...إنما تنتهي الحرمة وتحل للزوج الأول بشرائط منها النكاح، وهو أن تنكح زوجا غيره لقوله تعالى {حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: 230]...منها أن يكون النكاح الثاني صحيحا حتى لو تزوجت رجلا نكاحا فاسدا ودخل بها لا تحل للأول؛ لأن النكاح الفاسد ليس بنكاح حقيقة...منها الدخول من الزوج الثاني، فلا تحل لزوجها الأول بالنكاح الثاني حتى يدخل بها، وهذا قول عامة العلماء...المراد من النكاح: الجماع؛ لأن النكاح في اللغة هو الضم حقيقة، وحقيقة الضم في الجماع، وإنما العقد سبب داع إليه فكان حقيقة للجماع مجازا للعقد مع ما أنا لو حملناه على العقد لكان تكرارا؛ لأن معنى العقد يفيده ذكر الزوج فكان الحمل على الجماع أولى...أما الحديث فما روينا عن عائشة   رضي الله عنها  أن رفاعة القرظي طلق امرأته ثلاثا فتزوجها عبد الرحمن بن الزبير فأتت رسول الله   صلى الله عليه وسلم   وقالت: إن رفاعة طلقني، وبت طلاقي؛ فتزوجني عبد الرحمن بن الزبير ولم يكن معه إلا مثل هدبة الثوب؛ فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أتريدين أن ترجعي إلى رفاعة؟ لا، حتى تذوقي من عسيلته، ويذوق من عسيلتك...أما الإنزال فليس بشرط للإحلال؛ لأن الله تعالى جعل الجماع غاية الحرمة، والجماع في الفرج هو التقاء الختانين فإذا وجد فقد انتهت الحرمة."

(کتاب الطلاق، فصل فی حکم الطلاق البائن،189/3، ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير و يشترط أن يكون الإيلاج موجبًا للغسل و هو التقاء الختانين، هكذا في العيني شرح الكنز. أما الإنزال فليس بشرط للإحلال."

(کتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة، فصل فیماتحل به المطلقة و ما یتصل به،473/1، ط: رشیدیة)

بدائع الصنائع میں ہے:

"(وأما) بيان ما يتأكد به المهر فالمهر يتأكد بأحد معان ثلاثة:"

"الدخول والخلوة الصحيحة وموت أحد الزوجين، سواء كان مسمى أو مهر المثل حتى لا يسقط شيء منه بعد ذلك إلا بالإبراء من صاحب الحق، أما التأكد بالدخول فمتفق عليه، والوجه فيه أن المهر قد وجب بالعقد وصار دينا في ذمته، والدخول لا يسقطه؛ لأنه استيفاء المعقود عليه، واستيفاء المعقود عليه، يقرر البدل لا أن يسقطه كما في الإجارة؛ ولأن المهر يتأكد بتسليم المبدل من غير استيفائه لما نذكر فلأن يتأكد بالتسليم مع الاستيفاء أولى."

(كتاب النكاح، فصل بيان ما يتأكد به المهر، 2/ 291، ط: دار الكتب العلمية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144508100665

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں