بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تحلیل کی نیت کے ساتھ نکاح کرنا / جبرًا اور زبردستی کیے ہوئے نکاح کا حکم / تاریخ طلاق میں اختلاف


سوال

1.  مشروط حلالہ کسے کہتے ہیں؟ اگر کوئی آدمی نکاح میں حلالہ کا لفظ استعمال نہ کرے اور نہ ہی اس نکاح پر اجرت لے، بس دل میں نیت حلالہ کی ہو تو کیا یہ صورت مشروط حلالہ میں داخل ہے یا نہیں؟ اور ’’لعن الله المحلل و المحلل له‘‘ کا مصداق بنتاہے یا نہیں؟

2.  اگر کوئی آدمی کسی عورت سے جبراً نکاح کرے تو وہ نکاح منعقد ہوتا ہے یا نہیں؟

3.  اگر کوئی آدمی کسی عورت سے جبراً نکاح کرے اور اس کے بعد اس عورت سے ہم بستری کرے تو وہ زنا بالجبر میں آتا ہے یا نہیں؟

4.  تاریخِ طلاق میں عورت کا قول معتبر ہے یا شوہر کا، یعنی شوہر کا دعویٰ ہے کہ یکم محرم کو میں نے طلاق دی ہے اور بیوی دس محرم کا دعویٰ کرتی ہے، اب کس کا قول معتبر ہے؟

جواب

1- شوہر اگر اپنی بیوی کو تین طلاق دے دے تو  عورت اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجاتی ہے اور اس کے بعد شوہر کے لیے رجوع  یا تجدیِد نکاح کرنا جائز نہیں ہوتا، ہاں اگر  عورت عدت گزارنے کے بعد دوسرے شخص سے نکاح کرے پھر وہ اس سے ہم بستری کرنے کے بعد از خود  طلاق دے دے یا مرجائے  تو پھر یہ عورت اس دوسرے شوہر کی  عدت گزار کر پہلے شوہر سے نکاح کرسکتی ہے۔ لیکن  اس شرط کے ساتھ نکاح کرنا کہ دوسرا شخص ہم بستری کے بعد طلاق دے گا؛ تاکہ وہ پہلے شوہر کے لیے حلال ہوجائے  سخت گناہ، لعنت کا سبب  اور مکروہِ تحریمی ہے، البتہ اگر نکاح میں کوئی شرط نہ ہو اور دوسرا شخص نکاح کرتے ہوئے دل میں یہ بات چھپائے اور عقد میں اس کی تصریح نہ ہو اور نہ کوئی اجرت وغیرہ کا معاملہ طے ہو تو  اس کی گنجائش ہوگی، اور یہ صورت حدیث میں وارد ہونے والی وعید کا مصداق نہیں ہوگی۔

2- عاقلہ بالغہ لڑکی کی رضامندی کے بغیر زبردستی اس سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے،  اگر لڑکی نکاح پر راضی نہ ہو اور نکاح کے وقت اس نے  نکاح پر رضامندی کا اظہار نہ کیا ہو، اور نہ ہی خود اس نکاح کو قبول کیا اور نہ ہی کسی کو مجلسِ نکاح میں اپنی طرف سے اس نکاح کو قبول کرنے کا وکیل بنایا اور نہ ہی بعد ازاں عملی طور پر نکاح کو قبول کیا تو اس طرح کا نکاح منعقد نہیں ہوتا، لیکن زبردستی کی وجہ سے اسی کیفیت میں لڑکی نے زبانی طور پر ایجاب وقبول کرلیا ہو (خواہ نہ چاہتے ہوئے قبول کیا) تو نکاح منعقد ہو جائے گا۔

3- نکاح منعقد ہوجانے کے بعد کی جانے والی ہم بستری  زنا میں شمار نہیں ہوگی، لیکن اگر نکاح منعقد نہ ہوا تو   ہم بستری زنا شمار ہوگی۔

4- اگر شوہر کا یہ دعوی ہو کہ  طلاق یکم محرم کو دی ہے اور عورت  دس محرم کو طلاق دینے کا دعوی کرے تو اس صورت میں شوہر کا قول معتبر ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 414):

(وكره) التزوج للثاني (تحريمًا) لحديث: «لعن المحلل والمحلل له» (بشرط التحليل) كتزوجتك على أن أحللك (وإن حلت للأول) لصحة النكاح وبطلان الشرط فلا يجبر على الطلاق كما حققه الكمال، خلافا لما زعمه البزازي۔۔۔۔۔۔ (أما إذا أضمر ذلك لا) يكره (وكان) الرجل (مأجورا) لقصد الإصلاح، وتأويل اللعن إذا شرط الأجر ذكره البزازي.

(قوله: أما إذا أضمر ذلك) محترز قوله بشرط التحليل (قوله: لا يكره) بل يحل له في قولهم جميعا قهستاني عن المضمرات (قوله: لقصد الإصلاح) أي إذا كان قصده ذلك لا مجرد قضاء الشهوة ونحوها.

وأورد السروجي أن الثابت عادة كالثابت نصًّا أي فيصير شرط التحليل كأنه منصوص عليه في العقد فيكره. وأجاب في الفتح بأنه لا يلزم من قصد الزوج ذلك أن يكون معروفا بين الناس، وإنما ذلك فيمن نصب نفسه لذلك وصار مشتهرا به اهـ تأمل ۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 21):

نكاح المكره صحيح كطلاقه وعتقه مما يصح مع الهزل، ولفظ المكره شامل للرجل والمرأة فمن ادعى التخصيص فعليه إثباته بالنقل الصريح، نعم فرقوا بين الرجل والمرأة في الإكراه على الزنا في إحدى الروايتين، ثم رأيت في إكراه الكافي للحاكم الشهيد ما هو صريح في الجواز فإنه قال: ولو أكرهت على أن تزوجته بألف، ومهر مثلها عشرة آلاف زوجها أولياؤها مكرهين فالنكاح جاز ويقول القاضي للزوج: إن شئت أتمم لها مهر مثلها وهي امرأتك إن كان كفؤا لها، وإلا فرق بينهما ولا شيء لها إلخ فافهم.

الفتاوى الهندية (1 / 532):

إذا أقر الرجل أنه طلق امرأته منذ كذا صدقته المرأة في الإسناد أو كذبته أو قالت: لا أدري فالعدة من وقت الإقرار ولا يصدق في الإسناد هو المختار وجواب محمد - رحمه الله تعالى - في الكتاب أن في التصديق العدة من وقت الطلاق إلا أن المتأخرين اختاروا وجوب العدة من وقت الإقرار حتى لا يحل له التزويج بأختها وأربع سواها زجرا له حيث كتم طلاقها ولكن لا تجب لها النفقة والسكنى وعلى الزوج المهر ثانيا بالدخول لإقراره وتصديقها إياه بذلك كذا في غاية البيان ناقلا عن اليتيمة والفتاوى الصغرى.

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201200527

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں