بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حلال روزگار ملنے تک بینک کی ملازمت کرنے کا حکم


سوال

 میں این آر ایس پی بنک میں نوکری کرتا ہوں کیا یہ ٹھیک ہے؟ میرا کام لوگوں کو قرضہ دینا ہے اور اس کی وصولی ہے،  بے روزگاری کی وجہ سے یہ نوکری کرہا ہوں،  جیسے ہی کوئی اور نوکری ملتی ہے میں بنک کی نوکری چھوڑ دوں گا۔

جواب

واضح رہے کہ بینک کا مدار سودی نظام پر ہے، اور  سود کا لینا دینا، لکھنا اور اس میں گواہ بننا سب ناجائز  اور حرام ہے، اور بینک  ملازم سود لینے ، دینے  یا لکھنے کے کام میں مصروف ہوتے ہیں  یا کم سے کم ان کاموں میں معاون ہوتے ہیں اور یہ سب ناجائز و حرام ہیں۔

لہذا بینک  کی ملازمت  ناجائز ہے  اور تنخواہ بھی حرام ہے، اس لیے  بینک کے علاوہ  کسی اور جگہ  جائز ملازمت کی کوشش کریںاور سود کی گندگی سے اپنے  آپ  کو محفوظ رکھیں، اگر سخت مجبوری ہو تو حلال روزگار میسر آنے تک، بقدرِ ضرورت بینک کی آمدنی استعمال کرنے کی گنجائش ہوگی جیسےہی کوئی حلال روزگار میسرآئے بینک کی نوکری چھوڑنالازم ہوگا، خواہ ملنے والی حلال آمدنی بینک سے ملنے والے منافع سےکم ہو، ، کیوں  کہ حرام  کے مقابلے میں حلال  مال  تھوڑا   ہی کیوں  نہ ہو  اس میں  سکون اور برکت   ہوتی ہے،  جب کہ حرام مال خواہ  کتنا ہی زیادہ  ہو اس  میں بے برکتی، تباہی اور بربادی ہوتی ہے۔

دنیا دارالامتحان ہے، وقتی طور پر آزمائش آتی ہے، آپ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں، فرض نمازوں کے اہتمام کے ساتھ  روزانہ کم سے کم ایک دفعہ نمازِ حاجت پڑھ کر الحاح و زاری سے اپنے جملہ مقاصدِ حسنہ بالخصوص رزق کے لیے دعا کیا کریں، اللہ تعالیٰ دعا قبول فرمانے والے ہیں، اور دل سے دعا کرنے والے طالبِ صادق کی کسی دعا کو رائیگاں نہیں کرتے۔  نیز درج ذیل دعا کثرت سے پڑھتے رہیں:

تَوَكَّلْتُ عَلَی الْحَیِّ الْذِيْ لَایَمُوْتُ، اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَّ لَمْ یَکُنْ لَّهُ شَرِیْكٌ فِي الْمُلْكِ وَ لَمْ یَکُنْ لَّهُ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَ كَبِّرْهُ تَکْبِيْرًا.

(معارف القرآن، سورہ بنی اسرائیل)

حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں: ایک روز میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ باہر نکلا اس طرح کہ میرا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں تھا، آپ کا گزر ایک ایسے شخص پر ہوا جو بہت شکستہ حال اور پریشان تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پوچھا کہ تمہارا یہ حال کیسے ہوگیا؟ اس شخص نے عرض کیا کہ بیماری اور تنگ دستی نے یہ حال کردیا،  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہیں چند کلمات بتلاتا ہوں وہ پڑھو گے تو تمہاری بیماری اور تنگ دستی جاتی رہے گی وہ کلمات یہ تھے:

تَوَكَّلْتُ عَلَی الْحَیِّ الْذِيْ لَایَمُوْتُ، اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَّ لَمْ یَکُنْ لَّهُ شَرِیْكٌ فِي الْمُلْكِ وَ لَمْ یَکُنْ لَّهُ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَ كَبِّرْهُ تَکْبِيْرًا.

اس کے کچھ عرصہ بعد پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرف تشریف لے گئے تو اس کو اچھے حال میں پایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشی کا اظہار فرمایا، اس نے عرض کیا کہ جب سے آپ نے مجھے یہ کلمات بتلائے تھے، میں پابندی سے ان کو پڑھتا ہوں۔ (ابویعلی و ابن سنی از مظہری)

دعا کے ساتھ  ساتھ  کسی  جگہ جائز ملازمت کے حصول کی  سنجیدہ کوشش بھی جاری رکھیں۔ تقویٰ سے زندگی گزارنے کو اپنا شعار بنا لیں، اس لیے کہ تقویٰ پر اللہ تعالیٰ کی طرف ہر مشکل سے نجات، کاموں میں آسانی اور ایسی جگہ سے رزق ملنے کا وعدہ ہے جہاں سے بندہ کا گمان بھی نہیں ہو تا۔ اور اگر ممکن ہو تو کسی متبعِ شریعت و سنت اللہ والے عالم یا بزرگ کی صحبت میں آنا جانا رکھیں کہ یہ حصولِ تقویٰ میں انتہائی ممد و معاون ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ  فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ}[البقرة: 278، 279]

ترجمہ:اے ایمان والو!  اللہ سے ڈرو ، اور جو کچھ سود کا بقایا ہے اس کو چھوڑدو،  اگر  تم ایمان والے ہو، پھر اگر تم (اس پر عمل  ) نہ کروگے تو اشتہار سن لو جنگ کا  اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول  کی طرف  سے۔(از بیان القرآن)

{يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ} [البقرة: 276]

ترجمہ: اللہ سود کو مٹاتے ہیں ،  اور صدقات کو بڑھاتے ہیں۔(از بیان القرآن)

{وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ} [المائدة: 2]

ترجمہ: اور گناہ  اور زیادتی میں  ایک  دوسرے  کی اعانت مت کرو ، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرا کرو ، بلاشبہ  اللہ تعالیٰ  سخت سزا دینے والے ہیں۔(از بیان القرآن)

{وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا وَّ یَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ اِنَّ اللّٰهَ بَالِغُ اَمْرِهٖ قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ لِكُلِّ شَیْءٍ قَدْرًا} [الطلاق: 2، 3]

ترجمہ: اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے (مضرتوں سے) نجات کی شکل نکال دیتا ہے۔ اور اس کو  ایسی جگہ سے رزق پہنچاتا ہے جہاں سے اس کا گمان بھی نہیں ہوتا۔ اور جو شخص اللہ پر توکل کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس (کی اصلاح مہمات) کے لیے کافی ہے. اللہ تعالیٰ اپنا کام (جس طرح چاہے) پورا کرکے رہتا ہے اللہ تعالیٰ نے ہر شے کا ایک اندازہ (اپنے علم میں) مقرر کر رکھا ہے۔(از بیان القرآن)

{وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ اَمْرِهٖ یُسْرًا} [الطلاق: 4]

ترجمہ: . اور جو شخص اللہ سے ڈرے گا اللہ تعالیٰ اس کے ہر کام میں آسانی کردے گا۔(از بیان القرآن)

{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ}[التوبة: 119]

ترجمہ: اے ایمان والو اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور (عمل میں) سچوں کے ساتھ رہو۔ (از بیان القرآن)

حدیثِ مبارک  میں ہے:

عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه» ، وقال: «هم سواء».

 (الصحیح لمسلم، 3/1219، باب لعن آكل الربا ومؤكله، ط: دار احیاء التراث ، بیروت) (مشکاة المصابیح،  باب الربوا، ص: 243، قدیمی)

ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سود لینے والے اور دینے والے اور لکھنے والے اور گواہی دینے والے پر لعنت کی ہے اور فرمایا: یہ سب لوگ اس میں برابر ہیں، یعنی اصل گناہ میں سب برابر ہیں اگرچہ مقدار اور کام میں مختلف ہیں۔(از مظاہر حق)

ایک اور حدیثِ مبارک  میں ہے:

وعن ابن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الربا وإن كثر فإن عاقبته تصير إلى قل. رواهما ابن ماجه والبيهقي في شعب الإيمان. (مشکاة المصابیح، باب الربوا، ص: 246، ط: قدیمی)

ترجمہ: حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سود سے حاصل ہونے والا مال خواہ کتنا ہی زیادہ ہو مگر اس کا انجام کمی یعنی بے برکتی ہے۔(از مظاہر حق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112200851

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں