بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ذو القعدة 1446ھ 04 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

حلال اور حرام جانوروں کی پہچان


سوال

حلال اور حرام جانور کی پہچان کیا ہے؟

جواب

جانوروں کی دو قسمیں ہیں: 1۔وہ جانور جو  پانی میں رہتے ہیں، 2۔وہ جانور جو خشکی میں رہتے ہیں۔

پانی میں رہنے والے جانوروں میں مچھلی کے علاوہ کوئی جانور حلال نہیں ہے۔

اور خشکی میں رہنے والے جانوروں کی  تین قسمیں ہیں:

  1. جن میں خون ہی نہیں ہوتا،  جیسے: کیڑے مکوڑے۔
  2. جن میں خون تو ہوتا ہے، لیکن بہنے والا خون نہیں ہوتا، جیسے:چھپکلی، سانپ وغیرہ۔
  3. جن میں بہنے والا خون ہوتا ہے، جیسے: گائے، بیل، کتا، پرندے وغیرہ۔

ان میں سے پہلی اور دوسری قسم (جن میں خون ہی نہیں ہوتا، یا خون تو ہوتا ہے، لیکن بہتا ہوا خون نہیں ہوتا)کے تمام جانور حرام ہیں، سِوائے ٹڈی  کے، کہ اس کا کھانا حلال ہے۔

باقی تیسری قسم کے جو جانور ہیں، ان  میں وہ جانورجو دانتوں سے شکار کر کے کھاتے ہیں، جیسے شیر، بھیڑیا، چیتا وغیرہ،  اور وہ  پرندے جو اپنے پنجوں سے شکار کر کے کھاتے ہیں، جیسے: چیل، باز وغیرہ،  یا وہ جانور جو گندگی اور مردار کھاتے ہیں، جیسے: خنزیر اور کتا وغیرہ،  وہ سب حرام ہیں، اس کے علاوہ تمام جانور  حلال ہیں۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"نحتاج في هذا الكتاب إلى بيان المأكول وغير المأكول من الحيوانات، وإلى بيان المكروه منها، وإلى بيان شرائط حل الأكل في المأكول، وإلى بيان ما يحرم أكله من أجزاء الحيوان المأكول ‌أما ‌الأول ‌فالحيوان ‌في ‌الأصل ‌نوعان: نوع يعيش في البحر، ونوع يعيش في البر أما الذي يعيش في البحر فجميع ما في البحر من الحيوان محرم الأكل إلا السمك خاصة فإنه يحل أكله إلا ما طفا منه. ... (وأما) الذي يعيش في البر فأنواع ثلاثة: ما ليس له دم أصلا، وما ليس له دم سائل، وما له دم سائل مثل الجراد والزنبور والذباب والعنكبوت والعضابة والخنفساء والبغاثة والعقرب.

ونحوها لا يحل أكله إلا الجراد خاصة؛ لأنها من الخبائث لاستبعاد الطباع السليمة إياها وقد قال الله تبارك وتعالى {ويحرم عليهم الخبائث} [الأعراف: 157] إلا أن الجراد خص من هذه الجملة بقوله - عليه الصلاة والسلام - «أحلت لنا ميتتان» فبقي على ظاهر العموم.

وكذلك ما ليس له دم سائل مثل الحية والوزغ وسام أبرص وجميع الحشرات وهوام الأرض من الفأر والقراد والقنافذ والضب واليربوع وابن عرس ونحوها ... وما له دم سائل نوعان: مستأنس ومستوحش أما المستأنس من البهائم فنحو الإبل والبقر والغنم بالإجماع وبقوله تبارك وتعالى {والأنعام خلقها لكم فيها دفء ومنافع ومنها تأكلون} [النحل: 5]، وقوله سبحانه وتعالى {الله الذي جعل لكم الأنعام لتركبوا منها ومنها تأكلون} [غافر: 79] واسم الأنعام يقع على هذه الحيوانات بلا خلاف بين أهل اللغة."

(كتاب الذباح، ج:5، ص:35، 36، ط:دار الكتب العلمية)

فتح القدير ميں ہے:

قال (ولا يجوز أكل ذي ناب من السباع ولا ذي مخلب من الطيور) لأن «النبي - عليه الصلاة والسلام - نهى عن أكل كل ذي مخلب من الطيور وكل ذي ناب من السباع» . وقوله من السباع ذكر عقيب النوعين فينصرف إليهما فيتناول سباع الطيور والبهائم لأكل ما له مخلب أو ناب. والسبع كل مختطف منتهب جارح قاتل عاد عادة.

"(قوله والسبع كل مختطف منتهب جارح قاتل عاد عادة) قال الشراح: الفرق بين الاختطاف والانتهاب أن الاختطاف من فعل الطيور والانتهاب من فعل السباع البهائم انتهى. أقول: فعلى هذا كان ينبغي للمصنف أن يقول والسبع كل مختطف أو منتهب إلى آخر ما ذكره، لأن قوله والسبع كل مختطف منتهب يشعر باجتماع الاختطاف والانتهاب في كل سبع وذا لا يتصور على الفرق المذكور كما لا يخفى."

(كتاب الذبائح، ج:9، ص:499، 500، ط:دار الفكر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144604100567

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں