بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جس ریسٹورنٹ میں اکثر مشینی ذبیحہ کی مرغی پکتی ہو وہاں کوئی اور ڈش کھانے کا حکم/ کیا گوشت کے مشینی ذبیحہ نہ ہونے میں دکان دار کے قول کا اعتبار کیا جائے گا؟


سوال

1. یہاں ایڈیلیڈ آسٹریلیا میں حلال ریسٹورنٹ میں اکثر مشینی ذبیحہ کی چکن ہوتی ہے، تو وہاں سے چکن کے علاوہ کوئی ڈش کھا سکتے ہیں؟

2. اسی طرح شاورمہ کی دکان میں اگر چکن اور بھیڑ کا شاورمہ ملتا ہو اور دونوں گوشت کے لیے ایک ہی برتن اور چمچہ استعمال ہوتا ہو تو وہاں سے بھیڑ کا شاورمہ کھا سکتے ہیں اگر چکن مشینی ذبیحہ کی ہو؟

3. گوشت کی دوکان میں سے جب گوشت لیتے ہیں تو چکن کے حوالے سے پوچھ لیتے ہیں کہ چکن مشینی ذبیحہ تو نہیں، کیا دوکاندار کے بتانے سے کہ یہ مشینی ذبیحہ نہیں ہے وہ چکن استعمال کر سکتے ہیں؟

جواب

1، 2.واضح رہے کہ مروجہ مشینی ذبیحہ میں ذبح شرعی کی شرائط نہیں پائی جاتیں اس بناء پر مشینی ذبیحہ حلال نہیں ہے لہذا صورتِ مسئولہ میں حلال چیزوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ پاک برتنوں میں پکائی گئی ہوں اور تیاری کے دوران کسی مرحلے پر ان میں کوئی ناجائز و حرام عنصر شامل نہ ہو، لہذا جس ریسٹورنٹ میں مشینی ذبیحہ کی چکن کھلائی جاتی ہو اس ریسٹورنٹ میں کوئی حلال کھانا کھانے سے پہلے یہ اطمینان کرنا ضروری ہے کہ جس برتن اور آئل میں مشینی ذبیحہ کی چکن پکائی جاتی ہے اسی میں ہی حلال گوشت یاسبزی وغیرہ نہ پکائی جاتی ہو، اگر اس بات کا اطمینان ہو کہ دونوں کے پکانے کے لیے الگ الگ برتن اور آئل استعمال کیے جاتے ہیں تو ایسے ریسٹورنٹ میں کوئی حلال ڈش یا بھیڑ کا شاورما کھانا جائز ہوگا اور اگر اس بات کا اطمینان نہ ہو یا یقینی طور پر معلوم ہو کہ دونوں کے پکانے کے لیے ایک ہی برتن اور آئل استعمال کیا جاتا ہے تو پھر ایسے ریسٹورنٹ میں کوئی حلال ڈش کھانا جائز نہیں ہوگا۔ 

3.اگر دکان دار دیانت دار مسلمان ہو تو گوشت کے حلال ہونے میں اس کی بات کا اعتبار کیا جائے گا اور اگر کافر ہو تو جب تک کسی اور معتبرذریعہ سے گوشت کے حلال ہونے کا یقین نہ ہوجائے تب تک صرف اس کی بات پر اعتماد نہیں کیا جائے گا۔

 الفتاوى الهنديةمیں ہے:

"(الفصل الأول في الإخبار عن أمر ديني) نحو الإخبار عن نجاسة الماء وطهارته، والإخبار عن حرمة المحل وإباحته وما يتصل بذلك من تعارض الخبرين في نجاسة الماء وطهارته، وفي حرمة العين وإباحته. خبر الواحد يقبل في الديانات كالحل والحرمة والطهارة والنجاسة إذا كان مسلما عدلا ذكرا أو أنثى حرا أو عبدا محدودا أو لا، ولا يشترط لفظ الشهادة والعدد، كذا في الوجيز للكردري، وهكذا في محيط السرخسي والهداية، ولا يقبل قول الكافر في الديانات إلا إذا كان قبول قول الكافر في المعاملات يتضمن قوله في الديانات، فحينئذ تدخل الديانات في ضمن المعاملات فيقبل قوله فيها ضرورة هكذا في التبيين."

(كتاب الكراهية، الباب الأول في العمل بخبر الواحد، 5/ 308، ط: رشيدية)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"الحل والحرمة من الديانات ولا يقبل قول الكافر في الديانات، وإنما يقبل قوله: في المعاملات خاصة للضرورة."

(كتاب الكراهية، فصل في الأكل والشرب، 8/ 212، ط: دارالكتاب الإسلامي بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101880

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں