بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حالتِ حمل میں طلاق واقع ہو جاتی ہے


سوال

میرے بھائی  نے غصے کی حالت میں اپنی  حاملہ بیوی  کو چاربار  ان الفاظ سے طلاق دی" میں نے تجھے طلاق دی "یہ بات کچھ عرصہ پہلے ہوئی تھی اور اب بچہ پیدا ہو گیا ،کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حمل کی حالت میں طلاق نہیں ہوتی ہے، کیا یہ بات درست ہے ؟کیا طلاق واقع ہوگئی ہے؟ اگر طلاق واقع  ہو گئی تو بچہ کے پیدا ہونے پر عدت ختم ہو گئی یا نہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ شرعًا  حالت ِحمل میں بھی طلاق واقع ہو جاتی ہےاور مطلقہ حاملہ  کی عدت وضع حمل یعنی بچہ کی پیدائش تک ہوتی ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و عدّۃ الحامل أن تضع حملها." (ہندیہ :1/528)

لہذا صور تِ مسئولہ میں اگر واقعتًا  سائلہ  کے بھائی نے اپنی حاملہ بیوی کو ان الفاظ کے ساتھ  تین سے زائد مرتبہ طلا ق دی کہ "میں نے تجھے طلاق دی "تو اس سے بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں ،چوتھی طلاق لغو  واقع ہوئی اور بیوی شوہر پر حرمتِ  مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے، نکاح ختم ہو چکا ہے، اب رجوع جائز نہیں ہےاور  دوبارہ  نکاح بھی نہیں ہو سکتا ہے۔مطلقہ حاملہ کی عدت بچے کی پیدائش تک تھی، بچے  کی پیدائش پر عدت مکمل ہو کر ختم ہوچکی ہے،بیوی دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے،  البتہ بیوی اگر  دوسری جگہ نکاح کرے اور دوسرے شوہر سے نفاس کی مدت ختم ہونے کے بعد ہم بستری ہو جائے اس کے بعد شوہر اسے طلاق  دے دے یا بیوی طلاق لے لے یا شوہر کا انتقال ہو جائے تو اس کی عدت گزار کر اپنے پہلے شوہر سے دوبارہ  نکاح ہو سکتا ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و إن كان ‌الطلاق‌ ثلاثًا في الحرة و ثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا و يدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية."

(کتاب الطلاق، باب فیما تحلّ به المطلقة: 1/473،ط:دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100292

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں