بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حالت حمل میں طلاق دینے کے بعد رجوع کرنے کا طریقہ


سوال

شوہر بیوی کو حمل کے دوران دو طلاق دے دے، پھر دوبارہ رجوع کیسے کرے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر شوہر نے اپنی بیوی کو  دو طلاق رجعی دی ہیں،  تو ایسی صورت میں  عدت  (بچہ کی پیدائش تک)کے اندر رجوع کرسکتاہے،  رجوع کے دو طریقے ہیں:

أ۔قولی:   شوہر یہ کہےکہ : میں رجوع کرتاہوں، یا میں نے رجوع کرلیا، وغیرہ۔

ب۔فعلی:  شوہر کا اپنی بیوی کےساتھ ازدواجی تعلق قائم کرنا یا اس کو شہوت سے چھونا وغیرہ، لیکن یہ طریقہ ناپسندیدہ ہے۔

 لیکن اگر شوہر نے اپنی بیوی کو دوطلاق بائن دی ہیں اور اب ساتھ رہنا چاہتاہے، تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ  عدت (بچہ کی پیدائش تک)  یا عدت کے بعد نئے مہر اور شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے ایجاب وقبول کے ساتھ تجدید نکاح کرے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"‌وحل ‌طلاقهن) أي الآيسة والصغيرة والحامل (عقب وطء) لأن الكراهة فيمن تحيض لتوهم الحبل وهو مفقود هنا."

[كتاب الطلاق، ركن الطلاق، ج:3، ص:232، ط: سعيد]

تبیین الحقائق میں ہے:

"قال - رحمه الله - (فتطلق واحدة رجعية في اعتدي واستبرئي رحمك وأنت واحدة) يعني لا يقع في هذه الثلاثة إلا واحدة رجعية... (وفي غيرها بائنة وإن نوى ثنتين وتصح نية الثلاث) أي في غير الثلاثة المذكورة تقع واحدة بائنة إن نوى واحدة أو ثنتين وإن نوى ثلاثا فثلاث."

[كتاب الطلاق، باب الكنايات، ج:2، ص:216، ط: دار الكتاب الإسلامي.]

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"(الباب الثاني في إيقاع الطلاق وفيه سبعة فصول) . (الفصل الأول في الطلاق الصريح) . وهو كأنت طالق ومطلقة وطلقتك وتقع واحدة رجعية وإن نوى الأكثر أو الإبانة أو لم ينو شيئا كذا في الكنز."

[كتاب الطلاق، ج:1، ص:354، ط: دار الكتب العلمية]

الہدایہ علی ہامش فتح القدیر میں ہے:

"‌‌فصل فيما تحل به المطلقة (وإذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث ‌فله ‌أن ‌يتزوجها ‌في ‌العدة وبعد انقضائها) لأن حل المحلية باق لأن زواله معلق بالطلقة الثالثة."

[كتاب الطلاق،باب الرجعة، ج:4، ص:176، ط:دارالفكر.] 

الجوہرۃ النیرۃ میں ہے:

"‌‌[الرجعة على ضربين سني وبدعي] (قوله والرجعة أن يقول راجعتك أو راجعت امرأتي) هذا صريح الرجعة ولا خلاف فيه فقوله راجعتك هذا في الحضرة وقوله راجعت امرأتي في الحضرة والغيبة ثم الرجعة على ضربين سني وبدعي فالسني أن يراجعها بالقول ويشهد على رجعتها شاهدين ويعلمها بذلك فإن راجعها بالقول نحو أن يقول لها راجعتك أو راجعت امرأتي ولم يشهد على ذلك أو أشهد ولم يعلمها بذلك فهو مخالف للسنة، والرجعة صحيحة وإن راجعها بالفعل مثل أن يطأها أو يقبلها بشهوة أو ينظر إلى فرجها بشهوة فإنه يصير مراجعا عندنا إلا أنه يكره له ذلك ويستحب أن يراجعها بعد ذلك بالإشهاد وإن نظر إلى سائر أعضائها بشهوة لا يكون مراجعا"

[كتاب الرجعة، ج:2، ص:50،المطبعة الخيرية]

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101373

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں