مسئلہ یہ ہے کہ زاہد نے اپنی بیوی کو ٹیکسٹ میسج کے ذریعے یہ الفاظ بھیجے کہ: "میں تمہیں تمہارے گھر والوں کی وجہ سے طلاق دے رہا ہوں ،بس تم فلاں کی بیٹی ہو اس لیے طلاق دے رہا ہوں " زاہد کی نیت ان الفاظ سے طلاق دینے کی نہیں تھی ، صرف اپنی بیوی کو ڈرانے کی خاطر یہ الفاظ بھیجے ہیں، تاکہ وہ اپنے والدین کی وجہ سے شوہر کا گھر خراب نہ کرے، اور اس میسج بھیجنے کے بعد، عدت کے اندر شوہر نے رجوع کیا ہے اور دونوں میاں بیوی نے ازدواجی زندگی سکون سےگزاری ہے، اور دو بچے بھی ہوئے ہیں ، تین سال بعد طلاق کا یہ مسئلہ دوبارہ اٹھ گیا ہے، اور میسج میں دوسرا جملہ: " بس تم فلاں کی بیٹی ہو اس لیے طلاق دے رہا ہوں"یہ پہلے جملےکی تاکید ہے، اورمیسج میں " گھر والوں کی وجہ ..."سے مراد صرف عورت کا باپ ہے۔
1۔ اب سوال یہ ہے کہ ان الفاظ میں عورت کی طرف کوئی نیت یا مخاطب نہیں کیا ہے ،اور میسج ایک تحریر ہے؛ لہذا یہ الفاظ مرسوم کتابت شمار ہوگی یا غیر مرسوم؟
2۔ اور لفظ: " دے رہا ہوں" یہ حال جاری ہے جو اردو محاورے میں مستقبل کے لیے استعمال ہوتا ہے،مثلًا :میں جارہا ہوں یعنی گیا نہیں ہے جائے گا، صرف جانے کا فیصلہ کیا ہے۔
3۔ تو کیا ان الفاظ سے طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟ اور کس قسم کی طلاق واقع ہوگی صریح یا کنایہ؟ اورکتنی طلاقیں واقع ہوگی؟
جناب محترم مفتی صاحب شریعت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔
1۔ شوہر کا اپنی بیوی کو طلاق کے یہ الفاظ کہ:"میں تمہیں تمہارے گھر والوں کی وجہ سے طلاق دے رہا ہوں" بھیجنا، اور "تمہیں" کے لفظ سے اسے مخاطب کرنا ، اور اس کے والد کے نام لے کر کہ " بس تم فلاں کی بیٹی ہو اس لیے طلاق دے رہا ہوں" کہہ کر مخاطب کرنا ، ان سب قرائن کی بنیاد پر یہ تحریر مرسوم شمار ہوگی، اور اس سے طلاق واقع ہوجائے گی اور اس میں عدمِ طلاق کی نیت کا اعتبار نہیں ہوگا۔
2۔ اور لفظ "دے رہا ہوں" یہ جملہ حالِ جاری ہے، جیسے کہ سائل نے بھی کہا ہے ،اور حالِ جاری کا استعمال حال ہی کے معنی میں ہوتا ہے ، اور اس کا حال کے معنی میں استعمال ہونا حقیقت پر مبنی ہوگا، کبھی کبھار اس سے مستقبل کا معنی مخصوص قرائن کی بنیاد پر لیا جاتا ہے، لیکن سائل کا یہ کہنا کہ یہ اردو (مطلقًا) مستقبل کے لیے استعمال ہوتا ہے، درست نہیں ہے۔
3۔ لہذا صورتِ مسئولہ میں زاہد کا اپنی بیوی کو ان الفاظ بھیجنے سے کہ : "میں تمہیں تمہارے گھر والوں کی وجہ سے طلاق دے رہا ہوں ،بس تم فلاں کی بیٹی ہو اس لیے طلاق دے رہا ہوں " تو ایسی صورت میں یہ صریح الفاظ ہونے کی وجہ سے ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی، لیکن دوسرے جملے (بس تم فلاں کی بیٹی ہو اس لیے طلاق دے رہا ہوں) سے اگر واقعی شوہرکی نیت پہلے کی تاکید تھی، جیسا کہ سوال میں ہے ، اور جملہ کے سیاق سے اس میں تاکید کا پہلو موجود ہے، اس لیے دوسری طلاق واقع نہیں ہوئی، اور شوہر کا عدت کے اندر دوبارہ بیوی کو رجوع کرنا صحیح ہے، اور آئندہ کے لیے شوہر کے پاس دو طلاقوں کا اختیار باقی رہے گا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"كتب الطلاق، وإن مستبينًا على نحو لوح وقع إن نوى، و قيل مطلقًا، و لو على نحو الماء فلا مطلقًا. و لو كتب على وجه الرسالة و الخطاب، كأن يكتب يا فلانة: إذا أتاك كتابي هذا فأنت طالق طلقت بوصول الكتاب جوهرة ....
(قوله: كتب الطلاق إلخ) قال في الهندية: الكتابة على نوعين: مرسومة وغير مرسومة، ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرا ومعنونا مثل ما يكتب إلى الغائب. وغير المرسومة أن لا يكون مصدرا ومعنونا، وهو على وجهين: مستبينة وغير مستبينة، فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه يمكن فهمه وقراءته. وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء وشيء لا يمكنه فهمه وقراءته. ففي غير المستبينة لا يقع الطلاق وإن نوى، وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق وإلا لا، وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو ثم المرسومة لا تخلو إما أن أرسل الطلاق بأن كتب: أما بعد فأنت طالق، فكما كتب هذا يقع الطلاق وتلزمها العدة من وقت الكتابة. وإن علق طلاقها بمجيء الكتاب بأن كتب: إذا جاءك كتابي فأنت طالق فجاءها الكتاب فقرأته أو لم تقرأ يقع الطلاق كذا في الخلاصة ط (قوله إن مستبينا) أي ولم يكن مرسوما أي معتادا وإنما لم يقيده به لفهمه من مقابلة وهو قوله: ولو كتب على وجه الرسالة إلخ فإنه المراد بالمرسوم (قوله مطلقا) المراد به في الموضعين نوى أو لم ينو وقوله ولو على نحو الماء مقابل قوله إن مستبينا."
(حاشية ابن عابدين، كتاب الطلاق، مطلب في الطلاق بالكتابة، 3/ 246، ط: سعيد)
وفیہ ایضا:
" لأن المضارع حقيقة في الحال مجاز في الاستقبال"
(حاشية ابن عابدين، كتاب الطلاق، باب تفويض الطلاق، 3/ 319، ط: سعيد)
(قواعد اردو ، از مولوی عبد الحق (معروف : بابائے اردو)، ص: 89 - 91، 202، ط: الناظر پریس لکھنو)
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله: و ما بمعناها من الصريح) أي مثل ما سيذكره من نحو: كوني طالقا واطلقي ويا مطلقة بالتشديد، و كذا المضارع إذا غلب في الحال مثل أطلقك، كما في البحر."
(كتاب الطلاق، باب الصريح الطلاق، ص: 3، ج: 248، ط: سعید)
فتاوی عالمگیریہ میں ہے:
"في المحيط: لو قال بالعربية أطلق لايكون طلاقًا إلا إذا غلب استعماله للحال فيكون طلاقًا."
(کتاب الطلاق، الفصل السابع فی الطلاق باالالفاظ الفارسیۃ، ج: 1، ص: 384، ط: دار الفكر)
قرآن مجید میں ہے:
"ٱلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمسَاكُۢ بِمَعرُوفٍ أَو تَسرِيحُ بِإِحسَان"(البقرة: 229)
ترجمہ: "وہ طلاق دو مرتبہ ( کی ) ہے پھر خواہ رکھ لینا قاعدہ کے موافق خواہ چھوڑ دینا خوش عنوانی کے ساتھ "۔ (بیان القرآن)
فتاوی عالمگیریہ میں ہے:
"متى كرر لفظ الطلاق بحرف الواو أو بغير حرف الواو يتعدد الطلاق وإن عنى بالثاني الأول لم يصدق في القضاء كقوله يا مطلقة أنت طالق أو طلقتك أنت طالق ولو ذكر الثاني بحرف التفسير وهو حرف الفاء لا تقع أخرى إلا بالنية كقوله طلقتك فأنت طالق كذا في الظهيرية."
(الفتاوى العالمكيرية، كتاب الطلاق، الفصل الأول في الطلاق الصريح، 1/ 356، ط: دار الفكر)
وفیہ ایضا:
"و إذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض."
(الفتاوى الهندية، كتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة وفيما تحل به المطلقة، 1/ 470، ط: دار الفكر)
الدرر الحکام میں ہے:
"(الرجعي) من الطلاق (لا يحرم الوطء) لبقاء أصل النكاح ...(ومطلقته) أي مطلقة الرجعي (تتزين) ليرغب الزوج في رجعتها ...(ينكح) الزوج (مبانته بلا ثلاث في العدة وبعدها) لأن حل المحلية باق لأن زواله معلق بالطلقة الثالثة فينعدم قبلها ...(لا مطلقته بها) أي بالثلاث."
(کتاب الطلاق، باب الرجعۃ، ج: 1، ص: 384 - 386، ط: داراحیاء)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144512101093
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن