بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1446ھ 02 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

حکومت کی طرف سے ملنے والے منصوبے میں بعض گھرانوں کو محروم کرنے کا حکم


سوال

ایک گاؤ ں میں متعدد گھر انے آباد ہیں ،علاقے کے بڑے بنام سرکار درخواست میں ان تمام  گھر انوں کا کہہ کر کوئی منصوبہ لیتے ہیں ، (یعنی گاؤں کے ان تمام گھرانوں کےلیے ترقیاتی اسکیم  جو حکومت کی طرف سے ملتی ہے،یہ گاؤں  کے  تمام گھر انوں کےنام لے کرحکومت سے یہ  ترقیاتی اسکیم جاری کرتے ہیں)  گاؤں کے ان مخصوص گھرانوں کےلیے  منصوبہ ترقیاتی اسکیم        ملنے کے بعد  (یعنی منصوبہ ترقیاتی اسکیم ان تمام گھرانوں کو        ملنےکے بعد )گاؤں کے بڑے ان میں سے کچھ اپنے ناپسند لوگوں کو اس منصوبے ترقیاتی اسکیم سے فائدہ اٹھانے  نہیں دیتے ہیں ، (یعنی اس منصوبےترقیاتی اسکیم سے محروم کردیتے ہیں) حالانکہ یہ منصوبہ ترقیاتی اسکیم ان پورے تمام  گھر انوں کے لیے منظور شدہ ہے ،بہانہ یہ بناتے ہیں کہ آپ علاقے کے سروے کے وقت نہیں آئے، کسی افسر کی آمد کے وقت آپ موجود نہیں تھے، آپ اس وقت گاؤں میں مستقل نہیں رہتے ہیں،جب کہ ان کے مکانات اور زمینیں یہاں موجود ہیں ، وغیرہ بہانہ بناتے ہیں ۔

1۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ علاقے کے ان بڑوں کا ان افراد کو محروم کرنے کا کیا حکم ہے؟

2۔بعض گھرانوں کو محروم کرکے بعض کا فائدہ اٹھانے  کے بارے میں کیا حکم ہے  ؟کیافائدہ اٹھانے والے کےلیے یہ حلال ہے کہ نہیں ؟

جواب

1۔صورتِ  مسئولہ میں علاقے کے بڑے بنام سرکار درخواست میں متعدد گھرانوں کا  جو منصوبہ (ترقیاتی اسکیم) لیتے ہیں ،اس منصوبہ  ترقیاتی اسکیم میں منظور شدہ گھر انوں میں سے ہر ایک کو فائدہ حاصل کرنے کا حق حاصل ہے، ترقیاتی اسکیم منظور ہوجانے کے بعد گاؤں کے بڑوں کا  بعض لوگوں کو منصوبہ سے فائدہ اٹھانے سے محروم رکھنا شرعاًجائز نہیں ہے ۔

2۔بعض گھرانوں کو محروم کرکے اور بعض کا فائدہ اٹھانا شرعاًان کے حق کو غصب کرنا ہے اورناحق  کسی کا مال کھانا ناجائز  اور  حرام ہے، ناحق مال کھانے والے پر  قرآن و حدیث میں بہت سخت وعیدات وارد ہوئی ہیں،  ایسے لوگ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں،  بلکہ بعض کتبِ فقہ میں منقول  ہے کہ  ناحق مال کھانے والے  سے ایک دانق  (جو  درہم کا چھٹا  حصہ  ہوتا ہے)  کے  بدلے میں اس کی  سات  سو  مقبول  نمازیں،حق  دار کو  دے  دی جائیں گی، ظلم کوئی  معمولی چیز نہیں ہے، ساری عبادتیں اس وقت ناکافی ہیں جب تک ظلم سے براءت نہ ہو، ایک حدیثِ مبارک میں ہے کہ رسول اللہ  ﷺ  نے صحابہ رضوان اللہ علیہم سے دریافت کیا کہ: ”تم مفلس کس کو سمجھتے ہو؟ صحابہ رضوان اللہ علیہم نے عرض کیا کہ مفلس وہ ہے جس کے پاس درہم اور دینار نہ ہوں،اور  مال واسبا ب نہ ہوں،تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن آئے اوراس نے نمازیں بھی پڑھی ہوں، اور روزے بھی رکھے ہوں،  اور زکات بھی دیتا رہا ہو، مگر اس کے ساتھ اس نے کسی کو گالی دی تھی، کسی پر تہمت لگائی تھی، کسی کا ناحق مال کھایا تھا، ناحق خون بہایا تھا، کسی کو مارا تھا،  اب قیامت میں ایک اس کی یہ نیکی لے گیا اور دوسرا دوسری نیکی لے گیا،یہاں تک کہ اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں،لیکن پھر بھی حق دار بچ گئے ، تو پھر باقی حق داروں کے گناہ  اس پر لاد  دیے جائیں گے، یہاں تک کہ وہ گناہوں میں ڈوب کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا، یہ ہے حقیقی مفلس۔“

صحيح مسلم ميں ہے:

"عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «أتدرون ما المفلس؟» قالوا: المفلس فينا من لا درهم له ولا متاع، فقال: «إن المفلس من أمتي يأتي يوم القيامة بصلاة، وصيام، وزكاة، ويأتي قد شتم هذا، وقذف هذا، وأكل مال هذا، وسفك دم هذا، وضرب هذا، فيعطى هذا من حسناته، وهذا من حسناته، فإن فنيت حسناته قبل أن يقضى ما عليه أخذ من خطاياهم فطرحت عليه، ثم طرح في النار»."

( كتاب البر والصلة والآداب، باب تحريم الظلم، ج:4، ص:1997، ط،دار إحياء التراث العربي ببيروت)

مسند احمد میں ہے:

"حدثنا أسود بن عامر، قال: أخبرنا أبو بكر، عن عاصم، عن أبي وائل، عن عبد الله، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ‌من ‌اقتطع ‌مال امرئ مسلم بغير حق، لقي الله عز وجل وهو عليه غضبان "

ترجمہ:"جس نےنا حق کسی مسلمان کا مال  روک لیا وہ اللہ تعالی سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالی اس پر غصہ ہوں گے (اور اس سے ناراض ہوں گے)۔"

(‌‌مسند عبد الله بن مسعود رضي الله تعالى عنه، ج:7، ص:59، رقم :3946، ط: مؤسسة الرسالة)

مجلۃ الاحکام العدلیۃ میں ہے:

"(المادة 96) : لا يجوز لأحد أن يتصرف في ملك الغير بلا إذنه."

(‌‌المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية، ص27، ط:دار الجیل)

فتاوی شامی میں ہے:

"الصلاة لإرضاء الخصوم لاتفيد، بل يصلي لله، فإن لم يعف خصمه أخذ من حسناته جاء: «أنه يؤخذ لدانق ثواب سبعمائة صلاة بالجماعة».

(قوله: جاء) أي في بعض الكتب، أشباه عن البزازية، ولعل المراد بها الكتب السماوية أو يكون ذلك حديثاً نقله العلماء في كتبهم: والدانق بفتح النون وكسرها: سدس الدرهم، وهو قيراطان، والقيراط خمس شعيرات، ويجمع على دوانق ودوانيق؛ كذا في الأخستري حموي (قوله: ثواب سبعمائة صلاة بالجماعة) أي من الفرائض لأن الجماعة فيها: والذي في المواهب عن القشيري سبعمائة صلاة مقبولة ولم يقيد بالجماعة. قال شارح المواهب: ما حاصله هذا لاينافي أن الله تعالى يعفو عن الظالم و يدخله الجنة برحمته ط ملخصاً."

(‌‌كتاب الصلاة، ج:1، ص:438، ط،سعيد)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144601101785

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں