بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حجام (نائی) کو کوئی چیز فروخت کرنا


سوال

 ہمارا چائے کا ہوٹل ہے، جن حجام پر ہم چائے  فروخت کرتے ہیں اور وہ جو پیسے دیتے ہیں وہ ہمارے لیے حلال ہے یا نہیں ؟

جواب

 نائی کے پیشے کے  حلال یا حرام ہونے میں  تفصیل ہے کہ  جو کام جائز ہیں جیسے سر کے بال کاٹنا یا ایک مشت سے زائد ڈاڑھی کو  شرعی طریقے پر درست کرنا، ان کاموں کی اجرت بھی حلال ہے، لہذا ایسے حجام کے ساتھ خرید وفروخت کرنا بھی جائز ہے،    اور جو کام حرام ہیں، یعنی داڑھی مونڈنا یا بھنویں بنانا، ان کاموں کی اجرت بھی حرام ہے، البتہ  ایسے حجام کے  ساتھ  خرید وفروخت كا معامله  کرنا  امام کرخی رحمہ اللہ کے رائے پر جائز ہے؛ لہذا حجام پر چائے بیچنا جائز ہے، اور اس کے عوض میں وہ جو پیسے دیتا ہے وہ بھی  حلال ہے، مزید حجام سے کہہ دیں کہ اپنی حلال آمدنی میں سے دیں یا نیت حلال میں سے دینے کی کر لیا کرے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"اكتسب مالا من حرام ثم اشترى شيئا منه فإن دفع تلك الدراهم إلى البائع أولا ثم اشترى منه بتلك الدراهم فإنه لا يطيب له ويتصدق به، وإن اشترى قبل الدفع بتلك الدراهم ودفعها فكذلك في قول الكرخي وأبي بكر خلافا لأبي نصر، وإن اشترى قبل الدفع بتلك الدراهم ودفع غيرها أو اشترى مطلقا ودفع تلك الدراهم أو اشترى بدراهم أخرى ودفع تلك الدراهم قال أبو نصر يطيب ولا يجب عليه أن يتصدق وهو قول الكرخي والمختار قول أبي بكر إلا أن اليوم الفتوى على قول الكرخي كذا في الفتاوى الكبرى.".                    

(الفتاوى الهندية: الباب العشرون في البياعات المكروهة والأرباح الفاسدة، فصل في الاحتكار (3/ 215)، ط. رشيديه)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144308102257

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں