بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حجام کو دکان کرایہ پر دینے کا حکم


سوال

 نائی (حجام) کو دکان کرایہ پر دینے کا کیا حکم ہے ؟ کیا یہ تعاون علی الاثم ہے ؟ یا کرایہ پر دینا مباح ہے؟مع دلائل تحریر جواب مطلوب ہے۔

جواب

واضح رہے کہ حجامت یعنی بال کاٹنے والے کی اجرت کے حلال یا حرام ہونے میں تفصیل یہ ہے کہ جو کام حرام ہیں، یعنی داڑھی مونڈنا یا بھنویں بنانا، ان کاموں کی اجرت بھی حرام ہے، اور جو کام جائز ہیں جیسے سر کے بال کاٹنا یا ایک مشت سے زائد ڈاڑھی کو  شرعی طریقے پر درست کرنا، ان کاموں کی اجرت بھی حلال ہے، البتہ جس طرح خلافِ شرع بال (مثلاً: سر کے کچھ حصے کے بال چھوٹے اور کچھ کے بڑے) رکھنا ممنوع ہے، اسی طرح خلافِ شرع بال کاٹنے کی اجرت بھی حلال طیب نہیں، اگر حجام یہ کام بھی کرتا ہے تو اس کو کرایہ پر دکان دینا مکروہ اور تعاون علی الاثم ہے،لہذااپنی دکان کو ناجائز کام کے لیے استعمال نہ ہونے دیں۔

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"ولا بأس بأن يؤاجر المسلم ‌دارا ‌من ‌الذمي ليسكنها فإن شرب فيها الخمر، أو عبد فيها الصليب، أو أدخل فيها الخنازير لم يلحق المسلم إثم في شيء ‌من ذلك؛ لأنه لم يؤاجرها لذلك والمعصية في فعل المستأجر وفعله دون قصد رب الدار فلا إثم على رب الدار في ذلك كمن باع غلاما ممن يقصد الفاحشة به، أو باع جارية ممن لا يشتريها، أو يأتيها في غير المأتى لم يلحق البائع إثم في شيء ‌من هذه الأفعال التي يأتي بها المشتري، وكذلك لو اتخذ فيها بيعة، أو كنيسة أو باع فيها الخمر بعد أن يكون ذلك في السواد ويمنعون ‌من إحداث ذلك في الأمصار."

(باب الإجارة الفاسده، ج: 16، ص: 39، ط: دار المعرفة بيروت۔ لبنان)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411101438

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں