بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حج یا عمرہ کو بطور مہر مقرر کرنا


سوال

کیا حق مہر میں حج یا عمرہ کو بطور حقِ مہر مقرر کیا جاسکتا ہے؟  اگر نہیں کیا جاسکتا تو  بخاری کی حدیث جس میں حضور ﷺ نے عورت کا حقِ مہر تعلیمِ قرآن قرار دیا، اس حدیث کا کیا جواب ہے ؟

جواب

بصورتِِ  مسئولہ عقدِ  نکاح میں حج یا عمرہ کو بطورِ مہر مقرر کرنا درست نہیں ہے، اگر حج یا عمرہ کو بطورِ مہر مقرر  کرکے نکاح کیا گیا تو نکاح منعقد ہوجائے گا، اور  شوہر کے ذمے  مہرِ مثل ادا کرنا لازم ہوگا۔ یعنی لڑکی کے خاندان میں اس طرح کی لڑکی کا جو مہر متعارف ہے، وہ ادا کرنا ہوگا۔

اسی طرح تعلیم قرآن کو بھی مہر بنانا جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ تم مال کے ذریعہ عورتوں کو تلاش کرو، اور تعلیمِ قرآن مال نہیں ہے اور جس حدیث میں تعلیمِ قرآن کو مہر بنانے کا ذکر ہے ،  وہاں اس بات کی صراحت نہیں کہ آپ ﷺ نے اس کے علاوہ کوئی اور چیز مہر مقرر نہ فرمائی ہو،  بلکہ  عرب کا یہ طریقہ تھا کہ وہ منکوحہ کو جماع سے  پہلے کچھ نہ کچھ دیا کرتے تھے؛  اسی  لیے آپ  ﷺ  نے مذکورہ صحابی سے پوچھا کہ تمہارے پاس کوئی چیز ہے؟ جب صحابی نے عرض کیا کہ کچھ نہیں تو پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے پاس جو قرآن ہے اس کے سبب سے میں نے تمہارااس کے ساتھ نکاح کیا، یعنی جماع سے پہلے عورت کو دینے کے  لیے تمہارے پاس کچھ نہیں، لیکن تمہارے پاس قرآن کی نعمت ہے اس کی برکت سے نکاح کیا، اب تم مل سکتے ہو،  اور اگر تعلیمِ قرآن کے مہر بنانے کو تسلیم  کرلیا جائے تو  یہ ان صحابی  رضی اللہ عنہ کی خصوصیت ہوگی نہ کہ عام حکم۔

صفوة التفاسير (1/ 247):

"{أَن تَبْتَغُواْ بِأَمْوَالِكُمْ مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ} أي إِرادة أن تطلبوا النساء بطريق شرعي فتدفعوا لهن المهور حال كونكم متزوجين غير زانين {فَمَا استمتعتم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً} أي فلما تلذذتم به من النساء بالنكاح فآتوهنَّ مهورهن فريضةً فرضها الله عليكم بقوله: {وَآتُواْ النسآء صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً} [النساء: 4] ثم قال تعالى: {وَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُمْ بِهِ مِن بَعْدِ الفريضة} أي لا إِثم عليكم فيما أسقطن من المهر برضاهن."

صحيح البخاري (6/ 192):

"حدثنا عمرو بن عون، حدثنا حماد، عن أبي حازم، عن سهل بن سعد، قال: أتت النبي صلى الله عليه وسلم امرأة، فقالت: إنها قد وهبت نفسها لله ولرسوله صلى الله عليه وسلم، فقال: «ما لي في النساء من حاجة»، فقال رجل: زوجنيها، قال: «أعطها ثوبًا»، قال: لا أجد، قال: «أعطها و لو خاتمًا من حديد»، فاعتل له، فقال: «ما معك من القرآن؟» قال: كذا وكذا، قال: «فقد زوجتكها بما معك من القرآن»."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 102):

"قلت: و لا بد من كونها مما يستحق المال بمقابلتها ليخرج ما يأتي من عدم صحة التسمية في خدمة الزوج الحر لها وتعليم القرآن."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 101):

"فيحمل المنع المذكور على الندب؛ أي ندب تقديم شيء إدخالًا للمسرة عليها تألفًا لقلبها وإذا كان ذلك معهودًا وجب حمل ما خالف ما رويناه عليه جمعًا بين الأحاديث. وهذا وإن قيل: إنه خلاف الظاهر في حديث: «التمس و لو خاتمًا من حديد»، لكن يجب المصير إليه؛ لأنه قال فيه بعده: زوجتكها بما معك من القرآن، فإن حمل على تعليمه إياها ما معه أو نفي المهر بالكلية عارض كتاب الله تعالى و هو قوله تعالى: {أن تبتغوا بأموالكم} [النساء: 24]، فقيد الإحلال بالابتغاء بالمال، فوجب كون الخبر غير مخالف له وإلا لم يقبل لأنه خبر واحد، وهو لاينسخ القطعي في الدلالة وتمام ذلك مبسوط في الفتح."

الفتاوى الهندية (1/ 303):

"و لو تزوج امرأة على طلاق امرأة له أخرى أو على دم عمد له عليها أو على أن يحج بها؛ كان لها مهر مثلها."

البحر الرائق (3/ 168):

"وأشار المصنف إلى أنه لو تزوجها على أن يحج بها وجب مهر المثل لكن فرق في الخانية بين أن يتزوجها على أن يحج بها وبين أن يتزوجها على حجة فأوجب في الأول مهر المثل وفي الثاني قيمة حجة وسط."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207201250

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں