بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حج وعمرہ کے موقع پر تصویریا ویڈیو بنانے اور اس کو شیئر کرنے کا حکم


سوال

حج و عمرہ کے سفر کی تصویر یا ویڈیو بنا کر اپنےفیس بک یا واٹس اپ کے سٹیٹس پر شیئر کرنا کیسا ہے؟ شرعاً وضاحت کر دیجئے۔

جواب

دینِ  اسلام  میں  جان  دار  کی  تصویر سازی، خواہ کسی بھی شکل میں ہو  (متحرک ہو یا ساکن)یا کسی بھی طریقے سے بنائی گئی ہو،نیز بناوٹ کے لیے جو بھی آلہ استعمال ہو، اور  ضرورتِ  شدیدہ  کے علاوہ کسی بھی غرض و مقصد سے تصویر سازی کی گئی ہو، سب  ناجائز ہے، مذکورہ تنوع و اختلاف سے کسی جائز کام کو  مدنظر  رکھ کر صورت گری اور تصویر سازی کے حکم میں کوئی فرق یانرمی نہیں آتی، نصوص کی کثیر تعداداور بے شمار فقہی تصریحات اس مضمون کے بیان پر مشتمل ہیں، جو اہلِ علم سے مخفی نہیں ہیں، ماضی قریب تک تصویر سازی کی حرمت کا مسئلہ اہلِ علم کے ہاں مسلم و متفق علیہ رہا ہے اور اسے بدیہی امور میں سمجھا جاتا تھا، یعنی جس کو عرف نے تصویر کہا وہ تصویر قرار پائی۔

لہذا تصویر کشی کرنا چاہے موبائل کے ذریعے ہو یا کسی اور آلہ کے ذریعے ہو  (خواہ وہ دینی ہو، حج وعمرہ کے موقع پر ہو ہو یا کہیں بھی ہو) یا سیلفی وغیرہ بنانا  از رُوئے  شرع تصویر سازی  کے حکم میں ہونے کی وجہ سے ناجائز  ہے، اہلِ علم و اہلِ فتوی کی بڑی تعداد کی تحقیق کے مطابق تصویر کے جواز وعدمِ جواز کے بارےمیں ڈیجیٹل اور غیر ڈیجیٹل کی تقسیم شرعی نقطہ نظر سے ناقابلِ اعتبار ہے ۔ بلکہ مقدس مقامات (مکہ/مدینہ) میں اپنی عبادات کی ویڈیو، تصاویر اور سیلفی بنانا نہ صرف عبادات کی روح  (اخلاص و توجہ الی اللہ) کے ختم یا کم ہونے کا سبب ہے، بلکہ ریا و نمود  کا سببِ عادی ہے یا آئندہ بن سکتاہے، مزید  یہ کہ مذکورہ مقامات مقدس مقامات ہیں، اور ناجائز کام مقدس جگہ پر کرنے سے اس کی سنگینی میں اضافہ ہی ہوتاہے، اور ساتھ ساتھ مذکورہ ویڈیو یا تصاویر کو واٹس ایپ یا فیس بک اسٹیٹس پر لگانا خود کا تو گناہ ہے ہی، لیکن دوسروں کو بھی  جاندار اشیاء کی ویڈیو شئر کرکے انہیں  گناہ میں مبتلا کرنا ہے، جو ایک مزید وبال ہے، لہذا حج وعمرہ کے مقدس مقامات میں عبادات کی طرف توجہ دینی چاہیے، تصویر لینے اور ویڈیو وغیرہ بنانے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

حدیث شریف میں مروی ہے:

"وعن جرير قال:وذکر الحدیث فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من سن في الإسلام سنة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها من بعده من غير أن ينقص من أجورهم شيء ومن سن في الإسلام سنة سيئة كان عليه وزرها ووزر من عمل بها من بعده من غير أن ينقص من أوزارهم شيء» . رواه مسلم."

(مشکوۃ المصابیح، کتاب العلم، الفصل الاول، رقم الحدیث:210، ج:1، ص:72، ط:المکتب الاسلامی)

ترجمہ: حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو آدمی اسلام میں کسی نیک طریقہ کو رائج کرے تو اسے اس کا بھی ثواب ملے گا اور اس کا ثواب بھی جو اس کے بعد اس پر عمل کرے لیکن عمل کرنے والے کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی اور جس آدمی نے اسلام میں کسی برے طریقہ کو رائج کیا تو اسے اس کا بھی گناہ ہوگا اور اس آدمی کا بھی جو اس کے بعد اس پر عمل کرے گا۔ لیکن عمل کرنے والے کے گناہ میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ فينبغي أن يكون حراما لا مكروها إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل بتواتره اهـ كلام البحر ملخصا."

(كتاب الصلوة، مكروهات الصلوة، ج:1، ص:647، ط:ايج ايم سعيد)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144503102278

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں