بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

پب جی گیم کھیلنے کی شرعی حیثیت


سوال

پب جی  گیم میں بہت سے فتنے ہیں، جیسا کہ اس میں غیرمحرم لڑکا اور غیرمحرم لڑکی آپس میں بغیر کسی مجبوری کے کھلم کھلا بات کرسکتے ہیں، لڑکے، لڑکیاں گروپ کی شکل میں کھیلتے ہیں، لڑکی کے کارٹون کو ننگا کیا جاسکتا ہے اسی طرح اس میں گناہ کے کئی مواقع موجود ہیں جو کہ ناجائز ہیں، تو آپ پب جی کو حرام قرار کیوں نہیں دیتے؟

جواب

پب جی (PUBG) گیم کئی طرح کے شرعی ودیگر مفاسد پر مشتمل ہے، اس کے کھیلنے میں نہ کوئی دینی اور نہ ہی کوئی دنیوی فائدہ ہے، مثلاً جسمانی  ورزش وغیرہ ، یہ محض لہو لعب اور وقت گزاری  کے لیے کھیلی جاتی ہے، جو لایعنی کام ہے، اور  اس کو کھیلنے والے عام طور پر اس قدر عادی ہوجاتے ہیں کہ پھر انہیں اس کا نشہ سا ہوجاتا ہے، اور ایسا انہماک ہوتا ہے کہ وہ کئی دینی بلکہ دنیوی امور سے بھی غافل ہوجاتے ہیں، شریعت مطہرہ ایسے لایعنی لہو لعب پر مشتمل کھیل کی اجازت نہیں دیتی، جب کہ اس میں مزید شرعی قباحت یہ بھی یہ جان دار کی تصاویر پر مشتمل ہوتی ہے،غیرمحرم لڑکا اور غیرمحرم لڑکی آپس میں بغیر کسی مجبوری کے کھلم کھلا بات کرتے ہیں، لڑکے، لڑکیاں گروپ کی شکل میں کھیلتے ہیں، لڑکی کے کارٹون کو ننگا کیا جاتا ہے اسی طرح اس میں گناہ کے اور بھی کئی مواقع موجود ہیں جیسا کہ سوال سے واضح ہے، نیز  مشاہدہ یہ ہے کہ  جو لوگ اس گیم کو بار بار کھیلتے ہیں، ان کا ذہن منفی ہونے لگتا ہے اور گیم کی طرح وہ واقعی دنیا میں بھی ماردھاڑ وغیرہ کے کام سوچتے ہیں، جس کے بہت سے واقعات وقوع پذیر ہوئے ہیں،  لہذا پپ جی اور اس جیسے دیگر  گیم کھیلنا شرعاً جائز نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے :

 "و ظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال؛ لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها."

(کتاب الصلاۃ،مطلب؛مکروہات الصلاۃ،ج:۱،ص:۶۶۷،سعید)

تفسیر روح المعانی میں ہے :

"ولهو الحديث على ما روي عن الحسن كل ما شغلك عن عبادة الله تعالى وذكره من السمر والأضاحيك والخرافات والغناء ونحوها."

(سورہ لقمان،ج:۱۱،ص:۶۶،دارالکتب العلمیۃ)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے :

"(وعن أنس - رضي الله عنه - قال: قال رجل: يا رسول الله! الرجل منا) أي: من المسلمين، أو من العرب (يلقى أخاه) أي: المسلم أو أحدا من قومه، فإنه يقال له أخو العرب (أو صديقه) أي: حبيبه وهو أخص مما قبله (أينحني له؟) : من الانحناء، وهو إمالة الرأس والظهر تواضعا وخدمة (قال: لا) أي: فإنه في معنى الركوع، وهو كالسجود من عبادة الله سبحانه."

(باب المصافحۃ والمعانقۃ،ج:۷،ص:۲۹۶۵،دارالفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

  "ومن يرضى بكفر نفسه فقد كفر، ومن يرضى بكفر غيره فقد اختلف فيه المشايخ رحمهم الله تعالى في كتاب التخيير في كلمات الكفر إن رضي بكفر غيره ليعذب على الخلود لا يكفر، وإن رضي بكفره ليقول في الله ما لا يليق بصفاته يكفر، وعليه الفتوى كذا في التتارخانية."

(الباب التاسع فی احکام المرتدین ،ج:۲،ص:۲۵۷،دارالفکر)

الاختیار لتعلیل المختار میں ہے :

"قال: (والكافر إذا صلى بجماعة أو أذن في مسجد، أو قال: أنا معتقد حقيقة الصلاة في جماعة يكون مسلما) لأنه أتى بما هو من خاصية الإسلام، كما أن الإتيان بخاصية الكفر يدل على الكفر، فإن من سجد لصنم أو تزيا بزنار أو لبس قلنسوة المجوس يحكم بكفره."

(فصل فیما یصیر بہ الکافر مسلما،ج:۴،ص:۱۵۰،دارالکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100381

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں