بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صاحب استطاعت کے لیے حج پر جانا مشکل ہو تو کیا حکم ہے؟


سوال

میری والدہ پر حج فرض تھا لیکن غفلت کی وجہ سے حج نہیں کیا، اب حج کے پیسے ہیں لیکن صحت اچھی نہیں ہے، حج کرنا مشکل ہے، اب ان کے لیے کیا حکم ہے؟ 

جواب

جس شخص پر استطاعت کی وجہ سے حج فرض ہوگیا ہو اور اس نے حج کا زمانہ پایا مگر کسی وجہ سے حج نہ کر سکا، پھر کوئی ایسا عذر پیش آگیا جس کی وجہ سے خود حج کرنے پر قدرت نہیں رہی مثلاً ایسا بیمار ہوگیا جس سے شفا کی امید نہیں یا نابینا ہوگیا یا اپاہج ہو گیا یا فالج ہوگیا یا بڑھاپے کی وجہ سے ایسا کمزور ہوگیا کہ خود سفر کرنے پر قدرت نہیں رہی، تو اس آدمی کے لیے اپنی طرف سے کسی دوسرے آدمی کو بھیج کر حج بدل کروانا یا اپنے مرنے کے بعد اپنے ترکے سے اپنی طرف سے حج بدل کروانے کی وصیت کرنا فرض ہے، وصیت کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’میرے مرنے کے بعد میری طرف سے میرے مال سے حج بدل کرادیا جائے‘‘۔

لہذا صورت مسئولہ میں اگر آپ کی والدہ اب کسی عذر کی وجہ سے خود حج کرنے پر قدرت نہیں رکھتیں تو اپنی جانب سے حج بدل کروادیں یا حج بدل کی وصیت کردیں، جس کی تفصیل اوپر ذکر کی گئی ہے۔ 

نیز حج بدل کرتے وقت مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے:

میت یا جس زندہ معذور آدمی کی طرف سے حجِ بدل کیا جارہا ہے اس کے وطن سے کرانا چاہیے؛ کیوں کہ میت یا زندہ معذور آدمی اگر خود حج کرتے تو اپنے وطن سے کرتے، البتہ اگر وصیت یا فرضیت کے بغیر کوئی شخص اپنے عزیز کی طرف سے حج  کرتا ہے تو وہ ایصالِ ثواب کا نفل حج ہے، وہ ہر جگہ سے ہو سکتا ہے۔

احرام کے وقت حج کی نیت میت یا جس زندہ معذور آدمی کی طرف سے حج کر رہا ہے اس کی طرف سے کرنی چاہیے، یعنی احرام باندھتے وقت زبان سے یہ کہے کہ ’’میں فلاں شخص کی طرف سے حج کی نیت کرتا ہوں‘‘  اور اگر نام بھول جائے تو یہ کہے کہ ’’جس شخص کی طرف سے مجھ کو حج کے لیے بھیجا گیا ہے میں اس کی طرف سے حج کی نیت کرتا ہوں‘‘۔ اگر حج بدل کا احرام باندھتے وقت اس آدمی کی طرف سے حجِ بدل کرنے کی نیت نہیں کرے گا تو حجِ بدل ادا نہیں ہوگا اور ضمان لازم آئے گا؛ کیوں کہ اس نے حجِ بدل کے لیے پیسہ لینے کے باوجود حجِ بدل نہیں کیا۔

حجِ بدل کرنے والے کو حج افراد کرنا چاہیے، یعنی وطن سے جاتے ہوئے صرف حج کا احرام باندھنا چاہیے،اور دس ذی الحجہ تک اس احرام میں رہنا چاہیے، البتہ حجِ بدل کے لیے بھیجنے والے کی اجازت سے حجِ بدل میں حجِ تمتع اور حجِ قران کرنا بھی جائز ہے، لیکن حجِ تمتع یا قران کرنے کی صورت میں جو دمِ شکر (قربانی) لازم ہوتی ہے اگر بھیجنے والا اپنی خوشی سے اس قربانی کی قیمت ادا کردے تو بہتر، ورنہ اپنے پاس سے قربانی کرنی ہوگی، موجودہ زمانہ میں عرف کے اعتبار سے حج کے لیے بھیجنے والے کی طرف سے تمتع، قران اور قربانی کی اجازت ثابت ہے؛ اس لیے واضح طور پر اجازت لینا ضروری نہیں، تاہم صراحۃً اجازت لے لینا زیادہ بہتر ہے، حجِ بدل کرانے والے کو چاہیے کہ حجِ بدل کرنے والے کو ہر قسم کا اختیار دے دے، تاکہ حساب، خرچ، تمتع، قران، قربانی یا کوئی حادثہ، بیماری یا عذر وغیرہ کے سلسلہ میں مزید اجازت کی ضرورت پیش نہ آئے، عام اجازت اس طرح دے کہ ’’ میری طرف سے جس طرح چاہو حج کر لینا ‘‘۔

حجِ بدل کے صحیح ہونے کے لیے ایک شرط یہ بھی ہے کہ حجِ بدل جس کی طرف سے کیا جارہا ہے سارا خرچہ یا خرچہ کا اکثر حصہ اسی کے مال میں سے ادا کیا جائے۔

حجِ بدل کرانے والا حجِ بدل کرنے والے کو جانے سے آنے تک تمام خرچہ دے، بلکہ واپسی تک اس کے گھر والوں کا خرچہ جن کی کفالت اس کے ذمہ ہے ان کا خرچہ بھی دینا چاہیے، لیکن حجِ بدل کرنے والے کو جو خرچہ دیا جائے اس میں اس پر انتہائی ایمان داری، دیانت داری اور احتیاط لازم ہے، ورنہ حق العباد کا مؤاخذہ ہوگا، سفر کے بعد جو رقم بچے وہ واپس کردے اور بہتر یہ ہے کہ بھیجنے والا پہلے ہی کہہ دے کہ اگر خرچ میں کوئی بد عنوانی اتفاقاً ہوجائے تو وہ میری طرف سے معاف ہے۔

حجِ بدل کرنے کے لیے باشعور عاقل اور بالغ ہونا ضروری ہے، نابالغ بچے اور پاگل حجِ بدل نہیں کرسکتے اور حجِ بدل کرنے والا دین دار اور قابلِ اعتماد ہونا چاہیے اور حجِ بدل کے مسائل سے واقف ہونا چاہیے، بلکہ عالم ہو تو زیادہ بہتر ہے اور پہلے سے حج کیا ہوا ہونا چاہیے خواہ غریب ہو یا امیر، دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔

اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ حجِ بدل اجرت کے بدلہ نہ کروایا جائے۔

حجِ بدل کرنے والا آمر ( جس کے حکم سے حج کر رہا ہے ) کے حکم کی مخالفت نہ کرے، اور دی گئی ہدایات کے مطابق حج کرے۔

حجِ بدل کرنے والا صرف ایک حج کا احرام باندھے، ایک دفعہ میں متعدد آدمیوں کی طرف سے متعدد حج کا احرام نہ باندھے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

" الأصل في هذا الباب أن الإنسان له أن يجعل ثواب عمله لغيره صلاة كان أو صوما أو صدقة أو غيرها كالحج وقراءة القرآن والأذكار وزيارة قبور الأنبياء عليهم الصلاة والسلام والشهداء والأولياء والصالحين وتكفين الموتى وجميع أنواع البر، كذا في غاية السروجي شرح الهداية. (العبادات ثلاثة أنواع): مالية محضة كالزكاة وصدقة الفطر، وبدنية محضة كالصلاة والصوم، ومركبة منهما كالحج. والإنابة تجري في النوع الأول في حالتي الاختيار والاضطرار، ولا تجري في النوع الثاني وتجري في النوع الثالث عند العجز، كذا في الكافي. ولجواز النيابة في الحج شرائط. (منها) : أن يكون المحجوج عنه عاجزاً عن الأداء بنفسه وله مال، فإن كان قادراً على الأداء بنفسه بأن كان صحيح البدن وله مال أو كان فقيراً صحيح البدن لا يجوز حج غيره عنه.

(ومنها) استدامة العجز من وقت الإحجاج إلى وقت الموت، هكذا في البدائع. حتى لو أحج عن نفسه وهو مريض يكون مراعى فإن مات أجزأه، وإن تعافى بطل وكذا لو أحج عن نفسه وهو محبوس، كذا في التبيين. فإن أحج الرجل الصحيح عن نفسه رجلاً ثم عجز لم تجزئه الحجة، كذا في السراج الوهاج. وإنما شرط عجز المنوب للحج الفرض لا للنفل، كذا في الكنز. ففي الحج النفل تجوز النيابة حالة القدرة؛ لأن باب النفل أوسع، كذا في السراج الوهاج. (ومنها) الأمر بالحج فلا يجوز حج الغير عنه بغير أمره إلا الوارث يحج عن مورثه بغير أمره فإنه يجزيه، (ومنها) نية المحجوج عنه عند الإحرام، والأفضل أن يقول بلسانه: لبيك عن فلان. (ومنها) أن يكون حج المأمور بمال المحجوج عنه فإن تطوع الحاج عنه بمال نفسه لم يجز عنه حتى يحج بماله، وكذا إذا أوصى أن يحج بماله ومات فتطوع عنه وارثه بمال نفسه، كذا في البدائع.

وإذا دفع إلى رجل مالاً للحج عن ميت فأنفق المأمور شيئاً من مال نفسه فإن كان في ماله وفاء بالنفقة؛ لا يصير مخالفاً ويرجع بما أنفق من مال الميت استحساناً ولا يرجع قياساً، وإن لم يكن في مال الميت وفاء بالنفقة فأنفق شيئاً من ماله؛ ينظر إن كان أكثر النفقة من مال الميت؛ جاز ووقع الحج عن الميت، وإلا فلا، وهذا استحسان، والقياس أن لا يجوز، هكذا في محيط السرخسي.

(ومنها) أن يحج راكباً حتى لو أمره بالحج فحج ماشياً يضمن النفقة ويحج عنه راكباً، كذا في البدائع. ثم الصحيح من المذهب فيمن حج عن غيره أن أصل الحج يقع عن المحجوج عنه، ولهذا لا يسقط به الفرض عن المأمور وهو الحاج، كذا في التبيين. والأفضل للإنسان إذا أراد أن يحج رجلاً عن نفسه أن يحج رجلاً قد حج عن نفسه، ومع هذا لو أحج رجلاً لم يحج عن نفسه حجة الإسلام يجوز عندنا وسقط الحج عن الآمر، كذا في المحيط. وفي الكرماني: الأفضل أن يكون عالماً بطريق الحج وأفعاله، ويكون حراً عاقلاً بالغاً، كذا في غاية السروجي شرح الهداية. ولو أحج عنه امرأةً أو عبداً أو أمةً بإذن السيد جاز ويكره، هكذا في محيط السرخسي.

وإذا أمره رجلان كل واحد منهما أن يحج عنه حجة فأهل بحجة واحدة عنهما جميعاً فهذه الحجة عن نفسه ولا يقع لواحد منهما ويضمن النفقة ولا يمكنه بعد ذلك جعله عن أحدهما ... المأمور بالحج ينفق من مال الآمر ذاهبا وجائيا كذا في السراجية."

[الباب الرابع عشر فی الحج عن الغیر، ج:1،ص:257،ط:رشیدیہ] 

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144309101241

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں