کیا حج پر جاتے وقت رشتہ داروں اور دوستوں کو جمع کرنا درست ہے؟
اگر کوئی شخص حج کی ادائیگی کی توفیق ملنے پر بطورِ شکر کے، لازم وضروری سمجھے بغیر، اپنے عزیز واقارب کو جمع کرکے اپنی خوشی سے بلا تکلف اُن کی کچھ ضیافت کرتا ہے، تویہ شرعاً جائز، بلکہ باعثِ اجر بھی ہے، لیکن فی زمانہ حج پر جانے سے پہلے یا حج سے آنے کے بعد جو رشتہ داروں اور دوست واحباب کو جمع کرکے دعوتیں کرنے کا بعض لوگوں میں رواج بنتا جارہا ہے، اُن میں ریا کاری اور نام ونمود کا عنصر غالب ہوتا ہے، نیز بے تحاشا اسراف کیا جاتا ہے اور اسے ضروری ولازم سمجھتے ہوئے قرض لے کر بھی بڑی بڑی دعوتیں کی جاتی ہیں، اور آہستہ آہستہ عوام کے ذہنوں میں یہ تصور پیدا ہوتا جارہا ہے کہ حج سے پہلے یہ دعوتیں کرنا بھی حج ہی کا حصہ ہے اور ضروری ہے، اور اس طرح کی دعوت نہ کرنے کو عیب سمجھا جاتا ہے، لہٰذا جہاں اس قسم کا ماحول ہو وہاں اس کی حوصلہ افزائی کے بجائے اس کی حوصلہ شکنی ہی مناسب ہے، تاکہ آگے چل کر لوگ اسے حج کا حصہ سمجھ کر یہ نہ سمجھنے لگیں کہ جب تک ان تمام اخراجات کی رقوم کا انتظام نہ ہو جائے حج فرض نہیں ہوگا۔ الغرض اس معاملے میں اعتدال سے کام لینا چاہیے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"ليس من الحوائج الأصلية ما جرت به العادة المحدثة برسم الهدية للأقارب والأصحاب، فلا يعذر بترك الحج لعجزه عن ذلك كما نبه عليه العمادي في منسكه."
(كتاب الحج، ٢/ ٤٦١، ط: سعيد)
وفيه أيضاً:
"اعلم أن إخلاص العبادة لله تعالى واجب والرياء فيها، وهو أن يريد بها غير وجه الله تعالى، حرام بالإجماع للنصوص القطعية، وقد سمى - عليه الصلاة والسلام - الرياء: الشرك الأصغر."
(كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، فرع، ٦/ ٤٢٥، ط: سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144411100612
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن