بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حج اور قربانی میں فرق


سوال

آج کل  ایک ایڈ چل رہا ہے  کہ آن لائن قربانی  کیجیے تو  کیا ایسا کرنا جائز ہے؟  اگر جائز ہے تو پھر حج کی بھی کوئی نہ کوئی صورت ہوگی کہ لوگ اپنے ملک سے آن لائن حج  کرسکیں؛ کیوں کہ  دونوں سنت ابراہیمی ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ قربانی میں بغیر کسی عذر کے بھی کسی کو اپنا وکیل بنانا جائز ہے  یعنی قربانی خود بھی کر سکتا ہے ،کسی اور کے ذریعہ بھی کروا سکتا ہے،  البتہ حج میں اپنی طرف سے کسی اور کو حج کے لیے وکیل تب  بنا سکتے ہیں جب کہ خود کسی  شدید بیماری  وغیرہ کی بنا پرحج  ادا کرنے پر قادر نہ ہو ۔

صورتِ  مسئولہ میں دونوں عبادتوں میں فرق ہے،  اگرچہ سنت ابراہیمی ہونے میں دونوں مشترک ہیں۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (11/ 190):

"ومنها" أنه تجزئ فيها النيابة فيجوز للإنسان أن يضحي بنفسه وبغيره بإذنه؛ لأنها قربة تتعلق بالمال فتجزئ فيها النيابة كأداء الزكاة وصدقة الفطر؛ ولأن كل أحد لا يقدر على مباشرة الذبح بنفسه خصوصا النساء، فلو لم تجز الاستنابة لأدى إلى الحرج، وسواء كان المأذون مسلما أو كتابيا، حتى لو أمر مسلم كتابيا أن يذبح أضحيته يجزيه؛ لأن الكتابي من أهل الذكاة إلا أنه يكره؛ لأن التضحية قربة والكافر ليس من أهل القربة لنفسه فتكره إنابته في إقامة القربة لغيره، وسواء كان الإذن نصا أو دلالة.

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144111200501

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں