بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حج میں رمی، قربانی اور حلق میں ترتیب / مدرسہ صولتیہ سے حج کی قربانی کرانا


سوال

حج کی قربانی  "مدرسہ صولتیہ"  مکہ مکرّمہ  کے  ذریعے کرنا صحیح ہے؟

جواب

جواب سے پہلے بطورِ تمہید یہ واضح رہے کہ اصولی طور پر ہمارے ادارے کی ویب سائٹ سے کسی شخص یا ادارے سے متعلق  متعینہ جواب، یا تصدیق و تردید جاری نہیں کی جاتی۔

جو لوگ ”حج قِران“  یا ”حج تمتع“  کرتے ہیں ان کے ذمے  شکرانے کے طور پر حج کی قربانی واجب ہوتی ہے،اس حج  کی قربانی میں بھی وہی شرطیں ہوتی ہیں جو عام قربانی میں ہوتی ہیں، یعنی جانور کا ایک خاص عمر کاہونا اور عیب سے خالی ہونا ضروری ہے، نیز  رمی (کنکریاں مارنے)، قربانی اور  حلق (یا قصر)کروانے کے درمیان ترتیب بھی واجب ہے، یعنی حلق ، قربانی ہونے کے بعد کروانا  واجب ہے، اگر کوئی شخص قربانی ہونے سے پہلے حلق کروالے تو واجب چھوٹنے کی وجہ سے اس پر دم لازم ہو جائے گا۔

چوں کہ مذکورہ حکم (یعنی حج قران یا تمتع کرنے والے حاجی  پر رمی، قربانی اور حلق میں ترتیب کی رعایت)   واجب ہے؛ لہٰذا حاجی کو اس سلسلے میں پوری احتیاط کرنی چاہیے، خواہ خود قربانی کا اہتمام کرے، یا جس شخص یا ادارے پر اسے اعتماد ہو کہ وہ شرائط کے مطابق قربانی کرے گا اور بتائے گئے وقت کے مطابق واقعتًا اسی وقت قربانی کرے گا، اور اس کے مطابق حاجی قربانی کا اطمینان کرلینے کے بعد پھر حلق کروائے تو  یہ بھی درست ہے۔ اب سائل کو خود تحقیق کرلینی چاہیے کہ اگر  ”مدرسہ صولتیہ، مکہ مکرمہ“  والے ان  تمام امور  کی رعایت کرتے ہیں تو وہاں سے حج کی  قربانی کرالینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

ارشادِ باری تعالی ہے:

"{وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ }" [البقرة: 196] 

ترجمہ:  " اور اپنے سروں کو اس وقت تک نہ منڈاؤ جب تک کہ قربانی  اپنے موقع پر  نہ پہنچ جائے"۔(از بیان القرآن)     

غنیۃ الناسک میں ہے:

"لو حلق المفرد أو غیره قبل الرمي أو القارن أو المتمتع قبل الذبح أو ذبحًا قبل الرمي فعلیه دم عند أبي حنیفة بترك الترتیب." 

(279، 280، باب الجنایات، ط: ادارۃ القرآن )

         فتاوی شامی میں ہے:

"( و الترتيب الآتي) بيانه: (بين الرمي و الحلق و الذبح يوم النحر) و أما الترتيب بين الطواف و بين الرمي والحلق فسنة،  فلو طاف قبل الرمي والحلق لا شيء عليه و يكره. لباب".

(2/470، کتاب الحج ، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200353

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں