بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حج کس پر فرض ہے ؟ / استطاعت نہ ہونے کی صورت میں حج بدل کی وصیت کرنا


سوال

حج بدل یا حج کی وصیت ضروری ہے جو  صاحب استطاعت نہ ہو؟ استطاعت حج جہاز سے لگائیں یا عام گاڑیوں اور بحری جہاز سے؟ کم سے کم ہوائی جہاز سے خرچ کا معیار ہو گا یا دوسرے  ذرائع سے بھی اس پر حج فرض ہو جائے گا، کیوں کہ دوسرے ذرائع سستے ہیں اور جہاز مہنگا؟

عورت کے پاس اتنے پیسے ہوں کہ شوہر  کے لیے پیسے دے کر اپنا حج فرض ادا کر سکتی ہے تو کیا شوہر پر حج فرض ہو گا؟ وراثت میں اتنے  جائیداد آئی ہے جس سے حج ہو سکتا ہے اگرچہ وہ غریب ہو تو حج فرض ہو گا؟

 

جواب

واضح  رہے کہ کسی عاقل بالغ مسلمان  شخص کے پاس قرضہ کی رقم  منہا کرنے کے بعد اگر اتنی رقم موجود  رہے جس سے زندگی  میں ایک بار مکہ مکرمہ  تک آنے جانے کے  سفر،  اور وہاں پر کھانے، پینے ، رہنے اور قربانی  وغیرہ کے خرچہ ، اور اہل وعیال کے لیے حج سے واپسی تک کے خرچہ   کا بندوبست  ہوسکتا ہے تو ایسے شخص  پر حج  کرنا فرض ہوجاتا  ہے،  موجودہ زمانہ میں یوں کہہ سکتے ہیں  کہ حکومت کی طرف سے حج کرنے کے لیے جتنی رقم کا اعلان ہوتا ہے ( اگر قرض ہے تو قرض کی رقم  اور اہل وعیال کے لیے حج سے واپسی تک کے  خرچہ کی رقم منہا کرنے  کے بعد)  اتنی رقم موجود ہے  تو  زندگی میں ایک مرتبہ  حج کرنا فرض ہوجاتا ہے۔

نیز جس شخص پر حج فرض ہو جائے اور وہ اس کو ادا نہ کرسکے تو اس پر حج بدل کی وصیت کرنا لازم ہوگا، لیکن اگر کسی شخص پر استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے فرض ہی نہیں ہوا تو اس پر حج بدل کی وصیت کرنا لازم نہیں ہوگا۔

عورت  کی ملکیت میں مال ہونے کی وجہ سے شوہر پر حج فرض نہیں ہوگا۔

البتہ عورت پر حج کی ادائیگی فرض ہونے میں یہ تفصیل ہے کہ عورت کے ساتھ اگر کوئی محرم اپنے خرچ پر حج کے لیےتیار ہو تو  عورت پر حج ادا کرنا لازم ہوجائے گا، لیکن اگر عورت کا کوئی محرم اپنے خرچ پر ساتھ جانے کے لیے تیار  نہ ہو تو عورت پر حج کی ادائیگی فرض ہونے کے لیے اپنے سفرِ حج کے اخراجات کے ساتھ شوہر یا محرم کے سفرِ حج کے اخراجات کا انتظام کرنا بھی شرط ہوگا، لہٰذا اگر کوئی محرم اپنے خرچ پر ساتھ جانے والا نہ ہو اور عورت کے پاس اپنے اور محرم کے سفری اخراجات موجود ہوں تو اس پر حج ادا کرنا فرض ہوجائے گا۔  

حاشيۃ  الطحطاوي على مراقي الفلاح  میں  ہے:

فرض مرة على الفور في الأصح وشروط فرضيته ثمانية على الأصح الإسلام والعقل والبلوغ والحرية والوقت والقدرة على الزاد ولو بمكة بنفقة وسط والقدرة على راحلة مختصة به أو على شق محمل بالملك أو الإجارة لا الإباحة والإعارة لغير أهل  مكة ومن حولهم إذا أمكنهم المشي بالقدم والقوة بلا مشقة وإلا فلا بد من الراحلة مطلقا. وتلك القدرة فاضلة عن نفقته ونفقته عياله إلى حين عوده وعما لا بد منه - كالمنزل وأثاثه وآلات المحترفين - وقضاء الدين."

(1/727، 728، کتاب الحج ، ط؛  دارالکتب العلمیہ)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"(و منها القدرة على الزاد والراحلة) بطريق الملك أو الإجارة دون الإعارة و الإباحة سواء كانت الإباحة من جهة من لا منة له عليه كالوالدين و المولودين أو من غيرهم كالأجانب، كذا في السراج الوهاج. و لو وهب له مال ليحج به لايجب عليه قبوله سواء كان الواهب ممن تعتبر منته كالأجانب أو لاتعتبر كالأبوين و المولودين، كذا في فتح القدير. و تفسير ملك الزاد و الراحلة أن يكون له مال فاضل عن حاجته، و هو ما سوى مسكنه و لبسه و خدمه، و أثاث بيته قدر ما يبلغه إلى مكة ذاهبًا و جائيًا راكبًا لا ماشيًا و سوى ما يقضي به ديونه و يمسك لنفقة عياله، و مرمة مسكنه و نحوه إلى وقت انصرافه، كذا في محيط السرخسي. و يعتبر في نفقته و نفقة عياله الوسط من غير تبذير و لا تقتير، كذا في التبيين. و العيال من تلزمه نفقته، كذا في البحر الرائق. و لايترك نفقة لما بعد إيابه في ظاهر الرواية، كذا في التبيين."

(1/217، الباب الاول، کتاب المناسک، ط؛ رشیدیہ)(شامی، 2/455، کتاب الحج ، ط؛ سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111200243

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں