بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حج کی قربانی سے واجب قربانی ادا ہوگی یا نہیں؟


سوال

حاجی کے لیے قربانی کا کیا حکم ہے؟کیا حج کی قربانی سے واجب قربانی بھی ادا ہو جائے گی یا واجب قربانی الگ سے کرنی ہوگی ؟ اور اس مسئلہ کا حکم مسلک شافعی کے مطابق بھی بتا دیں۔

جواب

حاجی صاحبان مکہ مکرمہ میں جو قربانی کرتے ہیں، اسے دم شکر کہتے ہیں۔ دم شکر اس نعمت کے شکریے میں کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حاجی کو ایک ہی سفر میں حج اور عمرے کی سعادت نصیب فرمائی ہے، جو لوگ حج افراد کرتے ہیں، وہ چونکہ صرف حج کرتے ہیں ،اس لیے ان پر دم شکر بھی واجب نہیں، عید الاضحی کے موقع پر جو قربانی اپنے وطن میں کی جاتی ہے وہ حج کی مذکورہ بالا قربانی سے علیحدہ ایک مستقل سنت ہے،رسول اللہ صلی اللہ  علیہ وسلم نے مداومت کے ساتھ عید الاضحی میں قربانی فرمائی ہےاور یہ مال داروں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کی گئی زندگی کی نعمت کا شکرانہ ہے۔

حاجی پر عید الاضحی کی قربانی اس وقت واجب ہے کہ جب وہ مقیم ہو یعنی 8 ذو الحجہ کو منی کی طرف روانہ ہونے سے پہلے مکہ مکرمہ میں 15 دن قیام کرچکا ہو  اور اس کے پاس حج کے ضروری اخراجات کے علاوہ اتنی زائد رقم ہو جو نصاب کے برابر یا اس سے زائد ہو۔ اگر وہ مسافر ہے تو اس پر قربانی واجب نہیں یاوہ وہاں پر مسافر تو نہیں،لیکن حج کے ضروری اخراجات کے علاوہ اتنی زائد رقم نہ ہو جو نصاب کے برابر یا اس سے زائد ہو تو اس پر عید الاضحی کی قربانی لازم نہیں ہوگی۔

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک قربانی سنت ہے،  واجب نہیں۔ 

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"(وهي واجبة على المياسير والمقيمين عندنا). وذكر في الجامع عن أبي يوسف أنها سنة وهو قول الشافعي لقوله - عليه الصلاة والسلام - "كتبت علي الأضحية ولم تكتب عليكم".

وقال - عليه الصلاة والسلام - «خصصت بثلاث وهي لكم سنة الأضحية وصلاة الضحى والوتر». وقال - صلى الله عليه وسلم - «ضحوا فإنها سنة أبيكم إبراهيم» - عليه السلام - وعن أبي بكر وعمر - رضي الله عنهما - أنهما كانا لا يضحيان السنة والسنتين مخافة أن يراها الناس واجبة".

(كتاب الذبائح، باب الأضحية، ج:12، ص:8، ط:دار المعرفة)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله ثم اذبح) أي على وجه الأفضلية؛ لأن الكلام في المفرد وهو ليس بواجب عليه، وإنما يجب على القارن والمتمتع، وأما الأضحية فإن كان مسافرا فلا أضحية عليه، وإلا فعليه كالمكي ".

(كتاب الحج، باب الإحرام، ج:2، ص:371، ط:دار الكتاب الاسلامي)

التھذیب فی فقہ الامام الشافعی میں ہے:

"الأضحية: سنة مستحبة، وهي اسم للنعم التي تذبح يوم الأضحى، وثوابها جزيل؛ روي عن عائشة- رضي الله عنها-؛ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "ما عمل آدمي من عمل يوم النحر أحب إلى الله من إهراق الدم؛ إنها لتأتي يوم القيامة بقرونها وأشعارها وأظلافها، وإن الدم ليقع من الله بمكان قبل أن يقع من الأرض فطيبوا بها نفساً".

(كتاب الضحايا، ج:8، ص:37، ط:دار الكتب العلمية)

فقط الله اعلم


فتوی نمبر : 144411101834

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں