بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حج کی قربانی بینک کے ذریعہ کروانا/ مسافر حاجی کے لیے قربانی کا حکم


سوال

1۔ حج میں جو لوگ قربانی کے پیسے حکومت کو دے دیتے  ہیں، اس کا کیا حکم ہے ؟

2۔ حج میں مسافر کی قربانی کا حکم کیا ہے؟

جواب

1۔  حج تمتع یا حج قران کرنے والے شخص پر قربانی  واجب ہے، اور یہ بھی واجب ہے کہ پہلے قربانی کی جائے اس کے بعد حلق یا قصر کیا جائے، پس اگر قربانی سے  پہلے حلق یا قصر کرالیا تو ترتیب کے خلاف عمل کرنے کی وجہ سے دم لازم ہوتا ہے، لہذا صورتِ  مسئولہ میں قربانی کی رقم حکومت کے کھاتےمیں جمع کرانےکی صورت میں جب تک قربانی ہوجانے کا یقینی علم نہ ہوجائے اس وقت تک حلق یا قصر نہیں کرانا  چاہیے، پس بہتر یہی ہے کہ خود قربانی کی جائے، یا کسی ایسے فرد سے کروائی جائے جو ذبح کے بعد مطلع کردے، یا  حکومتی نمائندہ ادارے سے وقت کی تعیین کرلی جائے، اور جب تک باوثوق ذرائع سےقربانی ہوجانے کا علم نہ ہوجائے حلق یا قصر نہ کروائے۔

ملتقي الابحر میں ہے:

"و لو حلق القارن قبل الذبح لزمه دمان وعندهما دم والدم حيث ذكر شاة تجزيء في الأضحية."

( كتاب الحج، ص: ٤٣٨ - ٤٣٩، ط: دار الكتب العلمية)

غنیة الناسک میں ہے:

"لو حلق المفرد او غيره قبل الرمي او القارن او المتمتع قبل الذبح  او ذبحا قبل الرمي فعليه دم عند ابي حنيفة بترك الترتيب."

( باب الجنايات، الفصل السابع: في ترك الواجب في افعال الحج، المطلب العاشر في ترك الترتيب، ص: ٢٧٩ - ٢٨٠، ط: إدارة القرآن)


2۔ قربانی کے وجوب کی شرائط میں سے ایک شرط مقیم ہونا بھی ہے، لہذا مسافر پر قربانی واجب نہیں، البتہ اگر وہ کرنا چاہے تو کرسکتا ہے،  اور اس صورت میں وہ اجر کا مستحق ہوگا، پس مسئولہ صورت میں جو حاجی ایام نحر تک مسافر ہو اس پر عید الاضحی کے موقع پر کی جانے والی قربانی واجب نہ ہوگی، البتہ اگر وہ حج تمتع یا حج قرآن کر رہا ہو تو اس پر دم شکر لازم ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(وأما) (شرائط الوجوب) : منها اليسار وهو ما يتعلق به وجوب صدقة الفطر دون ما يتعلق به وجوب الزكاة... والموسر في ظاهر الرواية من له مائتا درهم أو عشرون دينارا أو شيء يبلغ ذلك سوى مسكنه ومتاع مسكنه ومركوبه وخادمه في حاجته التي لا يستغني عنها، فأما ما عدا ذلك من سائمة أو رقيق أو خيل أو متاع لتجارة أو غيرها فإنه يعتد به من يساره... ومنها الإقامة فلا تجب على المسافر ولا تشترط الإقامة في جميع الوقت حتى لو كان مسافرا في أول الوقت ثم أقام في آخره تجب عليه، ولو كان مقيما في أول الوقت ثم سافر ثم أقام تجب عليه، هذا إذا سافر قبل أن يشتري الأضحية فإن اشترى شاة للأضحية ثم سافر ذكر في المنتقى: له أن يبيعها ولا يضحي بها، وكذا روي عن محمد - رحمه الله تعالى - أنه يبيعها، ومن المشايخ من فصل بين الموسر والمعسر فقال: إن كان موسرا فالجواب كذلك، وإن كان معسرا ينبغي أن تجب عليه ولا تسقط عنه بالسفر، وإن سافر بعد دخول الوقت قالوا: ينبغي أن يكون الجواب كذلك، وجميع ما ذكرنا من الشروط يستوي فيه الرجل والمرأة، كذا في البدائع."

( كتاب الأضحية، الباب الأول في تفسير الأضحية وركنها وصفتها وشرائطها وحكمها، ٥ / ٢٩٢، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212200678

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں