بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حج کی فرضیت


سوال

کیا حج فرض ہے یا سنت؟ اگر فرض ہے تو کیسے؟

جواب

اگر کوئی آزاد عاقل و بالغ مسلمان  جو صحت و تندرستی کی وجہ سے حج کرنے پر قدرت رکھتا ہو اور اس  کے پاس ضروریاتِ زندگی کے پورا کر لینے، نیز دورانِ سفرِ حج اہل وعیال کے واجبی خرچے پورے کرنے کے ساتھ اس قدر زائد رقم ہو جس سے حج کےضروری اخراجات پورے ہوسکتے ہوں، تو ایسے شخص پر  حج کرنا فرض ہے۔

حج کی فرضیت خود قرآنِ مجید اور صحیح حدیث سے ثابت ہے، اللہ پاک نے قرآنِ مجید میں صاحبِ استطاعت شخص کو  حج کرنے کا حکم فرمایا ہے، اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "یا أیها  الناس! قد فرض علیکم الحجّ فحجّوا ..." الخ یعنی اے لوگو! تم پر حج فرض کیا گیا ہے، لہٰذا حج کرو ۔۔۔ نیز دیگر احادیثِ مبارکہ میں بھی تاکید کے ساتھ حج کرنے کا حکم آیا ہے اور حج نہ کرنے والے کے لیے وعید وارد ہوئی ہے، اور امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ صاحبِ استطاعت شخص پر حج کرنا فرض ہے؛ لہذا اصحابِ استطاعت افراد کے ذمہ زندگی میں ایک مرتبہ حج کرنا فرض ہو گا، نہ کہ محض سنت۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 118):
"أما الأول: فالحج فريضة ثبتت فرضيته بالكتاب، والسنة، وإجماع الأمة والمعقول.
أما الكتاب: فقوله تعالى: {ولله على الناس حج البيت من استطاع إليه سبيلا} [آل عمران: 97] ، في الآية دليل وجوب الحج من وجهين: أحدهما أنه قال {ولله على الناس حج البيت} [آل عمران: 97] ، وعلى: كلمة إيجاب والثاني أنه قال تعالى: {ومن كفر} [آل عمران: 97] قيل في التأويل: ومن كفر بوجوب الحج حتى روي عن ابن عباس - رضي الله عنه - أنه قال: أي ومن كفر بالحج فلم ير حجه برا، ولا تركه مأثما وقوله تعالى لإبراهيم - عليه الصلاة والسلام -: {وأذن في الناس بالحج} [الحج: 27] أي: ادع الناس ونادهم إلى حج البيت، وقيل: أي أعلم الناس أن الله فرض عليهم الحج، دليله قوله تعالى: {يأتوك رجالا وعلى كل ضامر} [الحج: 27] وأما السنة: فقوله - صلى الله عليه وسلم -: «بني الإسلام على خمس: شهادة أن لا إله إلا الله، وإقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، وصوم رمضان وحج البيت من استطاع إليه سبيلا» .
وقوله - صلى الله عليه وسلم -: «اعبدوا ربكم وصلوا خمسكم، وصوموا شهركم، وحجوا بيت ربكم، وأدوا زكاة أموالكم طيبة بها أنفسكم تدخلوا جنة ربكم» .
وروي عنه - عليه الصلاة والسلام - أنه قال: «من مات ولم يحج حجة الإسلام من غير أن يمنعه سلطان جائر، أو مرض حابس، أو عدو ظاهر، فليمت إن شاء يهوديا، وإن شاء نصرانيا، أو مجوسيا» .
وروي أنه قال: «من ملك زادا وراحلة تبلغه إلى بيت الله الحرام فلم يحج، فلا عليه أن يموت يهوديا أو نصرانيا» .
وأما الإجماع: فلأن الأمة أجمعت على فرضيته". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144112200778

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں