بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

13 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حج کے مسائل


سوال

سائل کے پاس اس وقت اتنا خرچہ موجود ہے کہ گورنمنٹ سے جو حج کرایا جاتا ہے وہ کر سکتا ہے، گورنمنٹ کے فارم بھرنے کی تاریخ یکم مئی سے 13 مئی آئی ہے، گورنمنٹ  کے فارم کے ساتھ 50 ہزار روپے جمع ہوں گے، اب سوال یہ ہے کہ:

1۔ یہ فارم جمع کرانے کے بعد جو رقم حج کے لیے درکار ہے، یعنی 7 سے 10 لاکھ، تو کیا جب تک نام آتا ہے اس رقم کو بچا کر رکھنا ضروری ہے؟ اگر وہ پیسے استعمال کردیے جائیں، یا کاروبار وغیرہ میں لگا دیے جائیں، یا خرچے وغیرہ میں خرچ ہو جائیں تو کیا اس صورت میں حج ساقط ہوجائےگا؟ یا ان پیسوں کی حفاظت ضروری ہے؟

2۔ اگر فارم اور درخواست جمع کرانے سے پہلے ان پیسوں کو استعمال کرلیا جائے تو کیا حکم ہے؟

3۔ پیسے اگر حج سے ایک، دو ماہ پہلے ملے ہوں تو حج فرض ہوتا ہے یا پھر حج کے مہینے کے فوراً بعد ملیں تب بھی پورے سال اس کو محفوظ رکھنا ضروری ہے؟

4۔ سائل کے پاس حج کے بعد کوئی رقم نہ بچے، یعنی صرف اتنے ہی پیسے ہوں کہ حج ہو جائے تو اس صورت میں کیا حکم ہے؟

5۔ سائل کی عمر 60 برس ہے اور طبیعت میں بہت کمزوری اور نقاہت بھی ہے، اکیلے سفر کا خوف بھی ہے اور کبھی کہیں بھی اکیلے سفر نہیں کیا اور اتنی استعداد نہیں کہ کسی اور کو ساتھ حج پر لے جاسکے اور کسی دوسرے  کے بغیر جانے میں بہت اندیشہ اور خوف ہے، اس صورت حال میں کیا حکم ہے؟

جواب

1، 2، 4۔  اگر کسی شخص کی ملکیت میں اتنی رقم ہو جس سے اس پر حج فرض ہو جائے، یعنی جن دنوں میں حج کے قافلے جاتے ہیں یا حج کی درخواستیں وصول کی جاتی ہیں ان دنوں میں یا شوال، ذوالقعدہ اور ذو الحجہ کے ابتدائی دس ایام میں کسی کے پاس اتنی رقم ہو کہ سفرِ حج کی  آمد و رفت کے اخراجات، وہاں رہائش کے  انتظام اور کھانے پینے کے خرچے  اور دورانِ سفر اہل و عیال کے نفقے وغیرہ کے لیے کافی ہو، اس پر لازم ہے کہ وہ حج ادا کر لے، اس میں بلا وجہ تاخیر نہ کرے،  لیکن اگر  وہ رقم کسی دوسرے مصرف میں خرچ ہو جائے تو ایسے آدمی پر حج بدستور فرض رہتا ہے،  حج  ذمہ سے ساقط نہیں ہوگا، بلکہ حج کی ادائیگی اس کے ذمہ میں باقی رہے گی۔ اگر مرنے سے پہلے حج کرنے کے اسباب بن جائیں تو حج ادا کرلے،  ورنہ حجِ بدل کی وصیت کرنا ضروری ہوگا، اوراسباب کے باوجود  حج نہ کرنے کی وجہ سے  توبہ واستغفار کرنا بھی ضروری ہوگا، پھر اگر اس نے وصیت کی ہو اور اس کے ترکہ میں مال بھی ہوتو ورثاء پر ایک تہائی مال میں سے حج ِبدل کرانا لازم ہوگا، اور اگر ترکہ میں مال نہ ہو  تو ورثاء پر حج بدل کرانا لازم تو نہیں ہوگا، البتہ اگر خوشی سے حج بدل کرادیں تو میت پر احسان ہوگا۔

3۔ اگر کسی آدمی کو حج کے مہینے کے بعد حج کے خرچہ کے بقدر رقم ملے، اور اس وقت تک حج کے لیے رقم جمع کرانے یا فارم جمع کرانے کا اعلان نہیں ہوا، تو فارم جمع کرانے کا وقت آنے سے پہلے تک وہ اس رقم کو خرچ کرسکتا ہے، اس لیے کہ ابھی تک اس پر حج فرض نہیں ہوا، البتہ اگر اس کے پاس اتنے پیسے ہوں اور  فارم جمع کرانے کا اعلان ہو جائے تو اس پر حج فرض ہو چکا، پھر وہ آدمی پیسے خرچ کرتا ہے تو اس سے حج کا فریضہ ساقط نہیں ہوگابلکہ بعد میں کسی بھی طریقہ سے حج کرنا ہوگا۔

5۔ واضح رہے کہ جس شخص پر استطاعت کی وجہ سے حج فرض ہوگیا ہو اور اس نے حج کا زمانہ بھی پایا اور حج نہ کیا، پھرکسی عذر کی وجہ سے حج کرنے کی قدرت نہ رہی ہو،  مثلاً ایسا بیمار ہو گیا جس سے شفا کی امید نہ ہو، یا نابینا ہو گیا، یا اپاہج ہو گیا ، یا فالج ہو گیا، یا بڑھاپے کی وجہ سے ایسا کمزور ہو گیا کہ خود سفر کرنے پر قادر نہ رہا، تو اس آدمی کے لیے اپنی طرف سے کسی دوسرے آدمی کو بھیج کر حج بدل کروانا یا اپنے مرنے کے بعد اپنے ترکے سے اپنی طرف سے حج بدل کروانے کی وصیت کرنا فرض ہے، وصیت کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’میرے مرنے کے بعد میری طرف سے میرے مال سے حج بدل کرادیا جائے‘‘۔ اور اگر  بڑھاپے کی وجہ سے ایسا کمزور ہوگیا کہ خود سفر کرنے پر قادر نہ ہو، اور ایسی حالت میں مال آیا تو اس شخص پر بدن کی سلامتی نہ ہونے کی وجہ سے حج فرض نہیں ہوگا، لیکن اگر صحت سفر کے قابل ہے اور صرف اکیلے جانے سے خوف آتا ہے تو کسی عزیز، محلہ دار، دوست کے ساتھ یا اچھے گروپ کے ساتھ جانے کی ترتیب بنائی جاۓ۔

فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:

"وتفسير ملك الزاد والراحلة أن يكون له مال فاضل عن حاجته، وهو ما سوى مسكنه ولبسه وخدمه، وأثاث بيته قدر ما يبلغه إلى مكة ذاهبا وجائيا راكبا لا ماشيا وسوى ما يقضي به ديونه ويمسك لنفقة عياله، ومرمة مسكنه ونحوه إلى وقت انصرافه كذا في محيط السرخسي ويعتبر في نفقته ونفقة عياله الوسط من غير تبذير، ولا تقتير كذا في التبيين والعيال من تلزمه نفقته كذا في البحر الرائق ولا يترك نفقة لما بعد إيابه في ظاهر الرواية."

(كتاب المناسك، الباب الأول في تفسير الحج وفرضيته ووقته وشرائطه وأركانه، ج: 1، ص: 217، ط: دار الفكر بيروت)

وفيه أيضا:

"(ومنها سلامة البدن) حتى إن المقعد والزمن والمفلوح، ومقطوع الرجلين لا يجب عليهم حتى لا يجب عليهم الإحجاج إن ملكوا الزاد والراحلة، ولا الإيصاء في المرض، وكذلك الشيخ الذي لا يثبت على الراحلة، وكذلك المريض كذا في فتح القدير، وهذا ظاهر المذهب عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى -، وهو رواية عنهما وظاهر الرواية عنهما أنه يجب عليهم فإن أحجوا أجزأهم ما دام العجز مستمرا بهم فإن زال فعليهم الإعادة بأنفسهم."

(كتاب المناسك، الباب الأول في تفسير الحج وفرضيته ووقته وشرائطه وأركانه، ج: 1، ص: 218، ط: دار الفكر بيروت)

وفيه أيضا:

"ولجواز النيابة في الحج شرائط. (منها) : أن يكون المحجوج عنه عاجزا عن الأداء بنفسه وله مال، فإن كان قادرا على الأداء بنفسه بأن كان ‌صحيح ‌البدن وله مال أو كان فقيرا ‌صحيح ‌البدن لا يجوز حج غيره عنه."

(كتاب المناسك، الباب الرابع عشر في الحج عن الغير، ج: 1، ص: 257، ط: دار الفكر بيروت)

البحر الرائق میں ہے:

"وشرائطه ثلاثة شرائط وجوب وشرائط وجوب أداء وشرائط صحة فالأولى ثمانية على الأصح الإسلام والعقل والبلوغ والحرية والوقت والقدرة على الزاد والقدرة على الراحلة والعلم بكون الحج فرضا.

وفي حاشيته منحة الخالق: (قوله: والوقت) قال الرملي سيذكره أيضا في شرائط الصحة ولا شك أن من لم يدرك ‌وقت الحج لم يجب عليه وأنه لا يصح إلا في وقته المخصوص فكان شرطا للوجوب وشرطا للصحة تأمل اهـ.

وفي لباب المناسك: السابع الوقت وهو أشهر الحج أو ‌وقت خروج أهل بلده إن كانوا يخرجون قبلها فلا يجب إلا على القادر فيها أو في ‌وقت خروجهم فإن ملكه أي المال قبل الوقت فله صرفه حيث شاء ولا حج عليه وإن ملكه فيه فليس له صرفه إلى غير الحج فلو صرفه لم يسقط الوجوب عنه."

(كتاب الحج، ج: 2، ص: 331، ط: دار الكت الإسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144309101495

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں