بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حج میں رمی اور قربانی میں ترتیب


سوال

سرکاری حج میں حکومتِ  پاکستان والے  کہتے ہیں کہ تمام حجاج کی قربانی مغرب تک ہوجائے گی،  اس کے بعد آپ حلق کرلیں۔ آپ سے سوال یہ ہے کہ ہم رمی کس وقت کریں؟  اول  وقت میں بہت مشکل ہے رمی کرنا،  کچھ دیر کے بعد کرتے ہیں تو فکر لاحق ہوتی ہے کہ آیا ہماری رمی قربانی کے بعد تو نہیں ہوگی؟

جواب

حاجی کو مزدلفہ سے منیٰ آکر چار کام کرنے ہوتے ہیں:

1)رمی  2) قربانی 3) حلق (بال کٹوانا)  4)طواف زیارت۔

پہلے تین کاموں میں ترتیب واجب ہے، یعنی سب سے پہلے رمی کرے پھر قربانی کرے (جب کہ حج تمتع یا قران کا ہو) اس کے بعد بال کٹوائے، اگر ان تین کاموں میں ترتیب قائم نہ رہی مثلاً رمی سے پہلے قربانی کردی یا حلق کرالیا یا قربانی سے پہلے حلق کرالیا تو دم واجب ہوگا۔

لہٰذا صورتِ  مسئولہ میں حجاج کرام کو  چاہیے کہ قربانی کی ترتیب خود بنالیں اور ترتیب کے ساتھ اطمینان سے تینوں اعمال ادا کریں، اور اگر اپنی ترتیب نہیں بناسکتے اور بامر مجبوری سرکاری انتظامیہ کے نظم پر قربانی کرنی پڑے تو جہاں تک ہوسکے اپنی طرف سے احتیاط کا پہلو اپنائیں کہ مغرب سے پہلے پہلے  رمی کریں  آج کل تو  رمی میں اتنا رش اور ہجوم بھی نہیں ہوتا جو پہلے زمانے میں ہوتا تھا اور حلق (بال کٹوانا) حکومت کی طرف سے بتائے گئے وقت کے بعد کریں۔

باقی ذی الحجہ کی دس تاریخ کو رمی کرنے کا مسنون وقت طلوع آفتاب سے شروع ہوکر زوال تک ہے، اور مغرب تک بلاکراہت مباح وقت ہے، اور مغرب سے صبح صادق سے پہلے تک مکروہ وقت ہے، گیارہ اور بارہ تاریخ کو مسنون وقت زوال سے غروب تک ہے اور مغرب سے صبح صادق تک مکروہ وقت ہے، اور تیرہ تاریخ کو بھی مسنون وقت زوال سے مغرب تک ہے اور طلوع کے بعد زوال تک مکروہ وقت ہے۔

المبسوط للسرخسی میں ہے:

ويبدأ إذا وافى منى برمي جمرة العقبة ثم بالذبح إن كان قارنا أو متمتعا ثم بالحلق لحديث عائشة رضي الله عنها أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إن أول نسكنا في هذا اليوم أن نرمي ثم نذبح ثم نحلق».

(باب رمي الجمار، ج: 4، ص: 113، ط: دارالفكر)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

(والكلام في الرمي في مواضع) (الأول) في أوقات الرمي وله أوقات ثلاثة يوم النحر وثلاثة من أيام التشريق أولها يوم النحر ووقت الرمي فيه ثلاثة أنواع مكروه ومسنون ومباح فما بعد طلوع الفجر إلى وقت الطلوع مكروه وما بعد طلوع الشمس إلى زوالها وقت مسنون وما بعد زوال الشمس إلى غروب الشمس وقت مباح والليل وقت مكروه كذا في محيط السرخسي ولو رمى قبل طلوع الفجر لم يصح اتفاقا كذا في البحر الرائق وأما وقت الرمي في اليوم الثاني والثالث فهو ما بعد الزوال إلى طلوع الشمس من الغد حتى لايجوز الرمي فيهما قبل الزوال إلا أن ما بعد الزوال إلى غروب الشمس وقت مسنون وما بعد الغروب إلى طلوع الفجر وقت مكروه هكذا روي في ظاهر الرواية، وأما وقته في اليوم الرابع فعند أبي حنيفة رحمه الله تعالى من طلوع الفجر إلى غروب الشمس إلا أن ما قبل الزوال وقت مكروه وما بعده مسنون كذا في محيط السرخسي.

(مواضع الجمار، ج: 1، ص: 233، ط: ماجدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144106201173

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں