بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حج کا کوئی رکن رہ جائے تو کیا حکم ہے؟


سوال

اگر کوئی شخص حج کا کوئی رکن ادا نہ کر سکا تو اس کی سزا کیا ہے؟

جواب

حج کی بنیادی شرائط میں سے ایک شرط احرام کا باندھنا ہے  یعنی دل سے حج کی نیت کرکے مکمل  تلبیہ پڑھنا، اس کے بغیر حج کی ادائیگی نہیں ہوتی، احرام میں داخل ہوجانے کے بعد حج کے ارکان دو ہیں:

ایک وقوف عرفہ: نویں ذی الحجہ کو زوالِ آفتاب کے بعد سے لے کر دسویں ذی الحجہ کی صبح صادق کے درمیان میدانِ عرفات میں ٹھہرنا، چاہے کچھ ہی دیر کے لیے ٹھہرے۔ (یہ حج کا رکنِ اعظم ہے، اگر کسی نے وقوفِ عرفہ نہ کیا، اس کا حج ہی نہیں ہوگا، چاہے دم ہی  کیوں نہ دے دے۔ البتہ اس کا وجوبی وقت نویں ذوالحجہ کے زوالِ آفتاب سے لے کر غروب سے پہلے پہلے ہے، لہٰذا بغیر عذر کے اس وقت کو چھوڑ کر مغرب کے بعد سے دسویں ذوالحجہ کی صبح صادق کے درمیان وقوف نہ کیا جائے، اگر بلا عذر ایسا کیا تو مکروہ ہوگا۔) 

دوسرا طوافِ زیارت: جو کہ وقوفِ عرفہ کے بعد کیا جاتا ہے، (جب تک حاجی طوافِ زیارت نہ کرلے اس کا حج مکمل نہیں ہوتا اور  بیوی اس کے لیے حلال نہیں ہوتی، اس کا وجوبی وقت دسویں ذی الحجہ کے سورج طلوع ہونے سے لے کر بارہویں ذی الحجہ کا سورج غروب ہونے تک ہے، وقتِ مقررہ کے دوران طواف نہ کرنے کی صورت میں دم لازم ہوتا ہے۔)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ـ مشكول - (6 / 389):

"( باب الإحرام ).

أحرم الرجل إذا دخل في حرمة لا تنتهك من ذمة وغيرها ، وأحرم للحج لأنه يحرم عليه ما يحل لغيره من الصيد والنساء ونحو ذلك ، وأحرم الرجل إذا دخل في الحرم أو دخل في الشهر الحرام وأحرمه لغة في حرمه العطية أي منعه كذا في ضياء الحلوم مختصر شمس العلوم وهو في الشريعة نية النسك من حج أو عمرة مع الذكر أو الخصوصية على ما سيأتي ، وهو شرط صحة النسك كتكبيرة الافتتاح في الصلاة".

الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة - (2 / 467):

"( و ) الحج ( فرضه ) ثلاثة ( الإحرام ) وهو شرط ابتداء وله حكم الركن انتهاء حتى لم يجز لفائت الحج استدامه ليقضي به من قابل ( والوقوف عرفة ) في أوانه سميت به لأن آدم وحواء تعارفا فيها ( و ) معظم ( طواف الزيارة ) وهما ركنان".

المبسوط للسرخسي ـ مشكول - (5 / 76):

"( ولنا ) أن الإحرام للحج بمنزلة الطهارة للصلاة فإنه من الشرائط لا من الأركان حتى يكون مستداما إلى الفراغ منه".

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع - (4 / 370):

"( فصل ) : وأما ركن الحج فشيئان : أحدهما:الوقوف بعرفة وهو الركن الأصلي للحج ، والثاني:طواف الزيارة".

المحيط البرهاني للإمام برهان الدين ابن مازة - (2 / 693):

"الفصل الثاني: في بيان ركن الحج وكيفية وجوبه:

فنقول: ركن الحج شيئان: الوقوف بعرفة، وطواف الزيارة إلا أن الوقوف بعرفة في الركنية فوق طواف الزيارة؛ لأن الوقوف يؤدى في حال قيام الإحرام من كل وجه، والطواف يؤدى حال قيام الإحرام من وجه؛ لأنه يؤدى بعد الحلق، وقد حصل التحلل بالحلق عن جميع المحظورات إلا النساء، ولأجل ذلك قلنا: إذا جامع قبل الوقوف بعرفة فسد حجه، وعليه القضاء، ولو جامع بعد الوقوف بعرفة قبل طواف الزيارة لا يفسد حجه، ولا قضاء عليه".

تحفة الفقهاء - (1 / 381):

" وأما ركن الحج فشيئان الوقوف بعرفة وطواف الزيارة ... ثم إذا ترك الركن لا يجوز الحج ولا يجزىء عنه البدل من ذبح البدنة والشاة".

 (بہشتی زیور، حج کے فرائض، واجبات اور سنتوں کا بیان،   ١/ ٤٦١، ط: الحجاز کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203200092

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں