بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حج کے لیے جمع شدہ رقم گھر کی تعمیر پر لگا دی


سوال

 میرے والد صاحب 2017 میں اسکول ٹیچر کی حیثیت  سےریٹائرڈ ہوئے ، اس وقت انہیں اکٹھے  کل ملا کے 20 لاکھ روپے تک ملے تھے ۔

ہم پانچ بہن بھائی ہیں اس وقت (والد صاحب کے ریٹائرمنٹ کے وقت) ہمارا گزار دادا جان سے ملے ایک کمرے میں بالکل بھی نہیں ہو رہا تھا تو والد صاحب نے پنشن کے پیسوں سے ایک نیا گھر تعمیر کیا لیکن جو پیسے حج کے نیت سے بچائے تھے وہ بھی گھر پر خرچ ہوئے اور اب 2024 تک حج نہ کر سکے ۔

 1۔ مفتی صاحب سوال یہ کہ کیا والد کو بچوں کے لیے گھر بنانا جائز تھا یا نہیں یا  پہلے حج فرض تھا حج ادا کرنا چاہیے تھا؟

2۔ دوسرا سوال یہ کہ اب والد صاحب کسی سے قرض لے کے حج پے جا سکتے ہیں جب کہ اس وقت ان کے پاس  50 ہزار  روپے تک بھی ان کے پاس اضافی رقم نہیں ؟

3۔مفتی صاحب والد صاحب سے امی کے حق مہر کا سونا کسی مد میں خرچ ہوا ہے اب امی کے حق مہر کی حیثیت بھی والد صاحب پر دوسرے قرض کی طرح ہے ؟ 

جواب

واضح  رہے کہ اگر کسی شخص  کی ملکیت میں حج کے موسم یعنی جن دنوں میں حج کے قافلے جاتے ہیں فی زمانہ جس وقت حج کے لیے  حکومت کی جانب سے درخواستیں وصول کی جاتی ہیں یا شوال ،ذو القعدہ ، اور ذو الحجہ کی ابتدائی ایام میں اتنی رقم  ہو جس سے  سفر حج کی آمد و رفت کے اخراجات ،وہاں رہائش، کھانے پینے  کا انتظام  کے ساتھ ساتھ سفر حج کے  دوران اہل و عیال کے نفقہ و ضروریات کے لیے کافی ہو،تو ایسے شخص پر   حج فرض ہوجاتا ہے، جس میں بلا  وجہ تاخیر کرنا جائز نہیں ہے۔ پس حج فرض ہوجانے کے بعد  اگر مذکورہ شخص اپنی  کسی  اور ضرورت  میں رقم خرچ کر دے، جس کے نتیجہ میں  اس کے پاس اتنی رقم نہ بچے جو حج کے اخراجات کے لیے کافی ہو تو اس صورت میں بھی حج بدستور فرض رہتا ہے، اور اس کے ذمہ سے ساقط نہیں ہوتا، تا وقتیکہ وہ وہ حج کرلے، پس اگر انتقال تک   اسباب مہیا  نہ ہوں،  حج بدل کی وصیت کرنا   ایسے شخص کے لیے ضروری ہے۔

1۔ صورت مسئولہ میں گھر کی تعمیر کی ضرورت اگر حج  کےمذکورہ مہینوں سے قبل پیش آگئی تھی، اور رقم تعمیرات  پر خرچ ہوگئی تھی  تو اس صورت میں سائل کے والد پر حج فرض نہیں ہوا، البتہ اشہر حج  میں سائل کے والد کے پاس رقم موجود رہی، اور گھر کی تعمیرات اشہر حج کے بعد شروع کی گئیں ، تو اس صورت میں سائل کے والد پر حج فرض ہوگیا ہے، جس کی ادائیگی  ضروری ہوگی۔

فتاوی محمودیہ میں  ہے:

"اگر مکان کی ضرورت حج سے پہلے ہی پیش آگئی اور اس  مجبوری کی وجہ سے مکان بنالیا گیا تو اس کے ذمہ حج فرض نہیں ہوا تھا،اگر وقتِ حج یعنی  جس وقت کہ لوگ آس پاس سے حج کے لیےجارہے تھے اس وقت تو مکان کی ضرورت  نہ تھی ، بل کہ بعد میں ضرورت پیش آئی اور اس میں روپیہ خرچ کرلیا تو اس کے ذمہ حج فرض ہوچکا تھا۔"

(کتاب الحج، ١٠ / ٢٩٠، ط :ادارۃ الفاروق)

2۔ تفصیل بالا کے مطابق  حج کے فرض ہونے یا نا ہونے کا فیصلہ کر لیا جائے، فرض ہونے کی صورت میں اگر انہیں کوئی حج کے اخراجات کے بقدر رقم قرض دینے تیار ہو، تو قرض لے کر  جا سکتے ہیں۔

رد المحتار علي الدر المختار  میں ہے:

 "وقالوا: لو لم يحج حتى أتلف ماله وسعه أن يستقرض ويحج ولو غير قادر على وفائه ويرجى أن لا يؤاخذه الله بذلك أي لو ناوياً وفاء إذا قدر كما قيده في الظهيرية.

قوله: (وسعه أن يستقرض الخ) أي جاز له ذلك وقيل يلزمه الاستقراض كما في لباب المناسك، قال منلا علي القاري في شرحه عليه وهو رواية عن أبي يوسف وضعفه ظاهر فإن تحمل حقوق الله تعالى أخف من ثقل حقوق العباد اھ، قلت: وهذا يرد على القول الأول أيضا إن كان المراد بقوله ولو غير قادر على وفائه أن يعلم أنه ليس له جهة وفاء أصلا أما لو علم أنه غير قادر في الحال وغلب على ظنه أنه لو اجتهد قدر على الوفاء فلا يرد، والظاهر أن هذا هو المراد أخذا مما ذكره في الظهيرية أيضا في الزكاة حيث قال إن لم يكن عنده مال وأراد أن يستقرض لأداء الزكاة فإن كان في أكبر رأيه أنه إذا اجتهد بقضاء دينه قدر كان الأفضل أن يستقرض فإناستقرض وأدى ولم يقدر على قضائه حتى مات يرجى أن يقضي الله تبارك وتعالى دينه في الآخرة وإن كان أكبر رأيه أنه لو استقرض لا يقدر على قضائه كان الأفضل له عدمه اھ ، وإذا كان هذا في الزكاة المتعلق بها حق الفقراء ففي الحج أولى."

(کتاب الحج، ٢ / ٢٥٧، ط: سعید)

3۔ صورت مسئولہ میں سائل کے والد نے اپنی اہلیہ کا مہر ادا کرنے کے بعد اگر مہر کا سونا بطور قرض اس سے لیا تھا، تو دیگر دیون کی طرح  مذکورہ سونا والد کے ذمہ واجب الأداء رہے گا، البتہ اگر سائل کی والدہ نے اپنے شوہر کو مذکورہ سونا بطور قرض نہ دیا ہو، بلکہ تعاون کے طور پر دیا ہو تو اس صورت میں والد کے ذمہ واجب الادا نہ ہوگا، نیز اگر سائل کے والد نے اپنی اہلیہ کا مہر اسے ادا کرنے سے پہلے ہی کسی اور مد میں استعمال کر لیا ہو تو اس صورت میں مہر کی ادائیگی ان پر لازم ہوگی۔

سنن الترمذيمیں ہے:

"١٠٧٨ - حدثنا محمود بن غيلان قال: حدثنا أبو أسامة، عن زكريا بن أبي زائدة، عن سعد بن إبراهيم، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «نفس المؤمن معلقة بدينه حتى يقضى عنه»"

(أبواب الجنائز، باب ما جاء عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «نفس المؤمن معلقة بدينه حتى يقضى عنه»، ٣ / ٣٨١، ط: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"والمهر يتأكد بأحد معان ثلاثة: الدخول، والخلوة الصحيحة، وموت أحد الزوجين سواء كان مسمى أو مهر المثل حتى لا يسقط منه شيء بعد ذلك إلا بالإبراءمن صاحب الحق، كذا في البدائع."

( كتاب النكاح، الباب السابع في المهر، الفصل الثاني فيما يتأكد به المهر والمتعة، ١ / ٣٠٣، ط: دارالفكر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144507101316

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں