بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حج فرض ہوجانے کے بعد استطاعت نہ رہے تو کیا حکم


سوال

میری والدہ کی 65سال عمر ہے،دس پہلے حج فرض ہوا تھا،لیکن ادا نہیں کیا،ابھی اتنا مال بھی نہیں کہ حج پر جاسکیں،اور ان کی طبیعت بھی اچھی نہیں رہتی،شوگر کی بیماری ہے،جس کی وجہ سے کمزوری کافی ہے،اب شریعت کا کیاحکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کی والدہ پر جب حج فرض ہوگیا تھا،اس وقت ان کے ذمہ حج کی ادائیگی لازم تھی،اب تک جو ادائیگی نہیں کی تو اس کی وجہ سے توبہ واستغفار کرنا ضروری تھا،تاہم مال نہ ہونے کی وجہ سے اور بیماری ہونے کی وجہ سے حج کی فرضیت ختم نہیں ہوئی،بلکہ بدستور ذمہ میں باقی ہے،اگر مرنے سے پہلے اسباب جمع ہوجائیں یا صحت ہوجائےتو حج کرلیں،البتہ اگر ان اعذار کی وجہ سے  والدہ اگرادائیگی نہ کرسکی تو ان کے ذمہ لازم ہے کہ  اپنی طرف سے کسی دوسرے آدمی کو بھیج کر حج بدل کروائیں یا اپنے ترکے سے اپنی طرف سے حج بدل کروانے کی وصیت کریں۔

"ردالمحتار"ميں هے:

''بخلاف ما لو ملكه مسلماً فلم يحج حتى افتقر حيث يتقرر وجوبه ديناً في ذمته، فتح، وهو ظاهر على القول بالفورية لا التراخي، نهر. قلت: وفيه نظر ؛ لأن على القول بالتراخي يتحقق الوجوب من أول سني الإمكان، ولكنه يتخير في أدائه فيه أو بعده، كما في الصلاة تجب بأول الوقت موسعاً، وإلا لزم أن لا يتحقق الوجوب إلا قبيل الموت، وأن لا يجب الإحجاج على من كان صحيحاً ثم مرض أو عمي، وأن لا يأثم المفرط بالتأخير إذا مات قبل الأداء، وكل ذلك خلاف الإجماع، فتدبر.''

(كتاب الحج، ص:458، ج:2، ط:سعيد)

"فتاوی هندیة"میں ہے:

"(ومنها سلامة البدن) حتى إن المقعد والزمن والمفلوح، ومقطوع الرجلين لا يجب عليهم حتى لا يجب عليهم الإحجاج إن ملكوا الزاد والراحلة، ولا الإيصاء في المرض، وكذلك الشيخ الذي لا يثبت على الراحلة، وكذلك المريض كذا في فتح القدير، وهذا ظاهر المذهب عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى -، وهو رواية عنهما وظاهر الرواية عنهما أنه يجب عليهم فإن أحجوا أجزأهم ما دام العجز مستمرا بهم فإن زال فعليهم الإعادة بأنفسهم."

(كتاب المناسك، الباب الأول في تفسير الحج وفرضيته ووقته وشرائطه وأركانه، ج: 1، ص: 218، ط: دار الفكر بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144405100394

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں